14 سو مہاجرین کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا گیا
29 نومبر 2016امدادی کارروائیاں مربوط کرنے پر مامور اطالوی بحریہ کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ ایک مشکل دِن تھا لیکن شکر ہے کہ امدادی تنظیموں کی مدد سے تمام تارکینِ وطن کو بچا لیا گیا۔‘‘ بحری سفر کے لیے نا موزوں کشتیاں اور گنجائش سے زائد افراد کے باعث تارکینِ وطن کا سمندری سفر اگرچہ موسمِ گرما میں بھی خطرناک ہوتا ہے تاہم موسمِ سرما میں جسمانی درجہء حرارت معمول سے کم ہونے اور سمندر کی طاقتور لہروں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
گزشتہ روز تارکینِ وطن کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیوں میں اٹلی، آئر لینڈ اور فلاحی تنظیموں کے جہازوں نے حصہ لیا۔ علاوہ ازیں چند تجارتی جہاز بھی امدادی کام میں شامل تھے۔ یہ مہاجرین گیارہ بڑی اور دو چھوٹی کشتیوں میں سوار تھے۔
اٹلی میں حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس سمندر کے راستے اٹلی پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ سن 2016 ختم ہونے میں ایک ماہ ابھی باقی ہے۔ اِس سال بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکہتر ہزار بتائی گئی ہے جبکہ سن دو ہزار چودہ کے سابقہ سالانہ ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ایک سو تھی۔
اطالوی حکام کے مطابق اِن اعداد وشمار میں گزشتہ روز بچائے جانے والے چودہ سو پناہ گزینوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی کا قصد کرنے والے تارکینِ وطن کی بڑی تعداد افریقی ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
اِن مہاجرین کا سفر لیبیا کے ساحلوں سے شروع ہوتا ہے جس کے لیے انسانی اسمگلروں کو کئی سو امریکی ڈالر ادا کیے جاتے ہیں۔ متعدد تارکینِ وطن شمالی یورپی ممالک جانے کے ارادے سے اٹلی پہنچتے ہیں۔ زیادہ تر ایسے افراد کی من چاہی منزل جرمنی یا سویڈن جیسے ممالک ہوتے ہیں۔
عالمی تنظیم برائے مہاجرت اور مہاجرین کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس بحیرہء روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے یا لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 4690 ہے۔