ISI کا کوئی اہلکار امریکی عدالت میں پیش نہیں ہوگا
23 دسمبر 2010جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں ایک امریکی عدالت کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہ کو طلب کرنے پر مختلف ارکان کی جانب سے اٹھائےگئےسوالات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہاکہ امریکی عدالت کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہ کو طلب کرنے پر اس ایوان میں جتنی تشویش پائی جاتی ہے اتنی ہی تشویش انہیں بھی لاحق ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے:’’آئی ایس آئی پاکستان کا انتہائی حساس اور اہم ادارہ ہے۔ میں صرف آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ اگر امریکی عدالت میں جانے کے لیے ان کی رضا مندی نہ ہو تو کوئی انہیں نہیں بھیج سکتا۔ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا گیا تو وہ ہماری باہمی مشاورت سے ہوگا۔‘‘
وزیراعظم گیلانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملکی سالمیت اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائی سب کی رضا مندی سے کی گئی اور اب شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کا فیصلہ کسی بیرونی دباﺅ پر نہیں کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ بدھ کے روز نیویارک میں بروکلین کی عدالت نے ممبئی حملوں کے حوالے سے زیرسماعت ایک مقدمے میں آئی ایس آئی اورکالعدم مذہبی تنظیم لشکرطیبہ کے رہنماﺅں کو طلب کیا تھا، جس کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ یہ پاکستان پر شمالی وزیرستان میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے لیے دباﺅ بڑھانے کا ایک حربہ ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر جب کسی ایک ملک کے شہری دوسرے ملک پر نقصانات کے ازالے کے لئے مقدمہ دائر کریں تو اس میں حکومت کو فریق بنایا جاتا ہے۔ لیکن امریکی شہریوں کی جانب سے دائر مقدمہ اس حوالے سے غیر معمولی نوعیت کا ہے کہ اس میں براہ راست ایک خفیہ ایجنسی کو فریق بنایاگیا ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی قانون کے ماہر وکیل احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ امریکی حکومت نہیں بلکہ شہریوں کی طرف سے دائر کیا گیا ہے اور موجودہ حالات میں یہ حساس نوعیت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’اس وقت جو سمن جاری ہوئے ہیں وہ فوجداری کاروائی کے تحت نہیں ہیں اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ اگر آئی ایس آئی کے ڈی جی امریکی عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو اس سے کوئی زیادہ مسائل پیدا ہونگے۔ اگر ایسی کوئی مشکلات پیدا ہونے کا امکان ہے تو اس طرح تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تعاون کی جو یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں وہ بہت زیادہ متاثر ہوں گی۔‘‘
دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ عبدالباسط کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابھی تک امریکی عدالت کے سمن نہیں دیکھے۔ اس لئے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے ۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مستقبل میں ذرائع ابلاغ میں اس مقدمے کو اچھالا گیا تو پھر دہشتگردی کے خلاف مصروف عمل دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں یعنی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان عدم اعتماد کی فضاء بڑھ سکتی ہے۔
رپورٹ:شکور رحیم / اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد