1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آمر کی گود میں پلنے والا آمریت کا سب سے بڑا ناقد

Ali Amjad5 مئی 2013

پاکستان میں گیارہ مئی کے انتخابات کے ایک فرنٹ رنر اورمسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو مسلم انتہا پسندی کے خلاف امریکا کی بپا کی ہوئی جنگ کی حمایت پر از سر نو نظر ثانی کرنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/18SVS
تصویر: AP

نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکا پر 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد واشنگٹن کی طرف سے عالمی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف شروع کی جانے والی مہم میں اسلام آباد کی طرف سے بھر پور حمایت و تعاون کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کے عوض پاکستان کو امریکی امداد کی شکل میں اربوں ڈالر سے نوازا گیا۔ تاہم پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ امریکا کی طرف سے شروع کردہ اس جنگ کو پاکستان کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس نام نہاد ’امریکی جنگ‘ میں پاکستان اپنے ہزاروں فوجیوں کی قربانی دے چُکا ہے۔

مذہب کی طرف جھکاؤ رکھنے والے میاں نواز شریف قدامت پسند مانے جاتے ہیں۔ وہ آئندہ ہفتے کے روز منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے تیسری بار ملک کا وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ شریف کا کہنا ہے کہ امریکی پشت پناہی کے ساتھ طالبان کے خلاف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا عمل شورش و بغاوت کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ ثابت نہیں ہوا ہے۔

Pakistan Wahlen Wahlplakate
نواز شریف کی انتخابی مہم کی جھلکیاںتصویر: Arif Ali/iAFP/Getty Images

میاں نواز شریف نے ہفتہ چار مئی کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک سیاہ بکتر بند گاڑی میں بیٹھ کر ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا،’میرے خیال میں بندوقیں اورگولیاں ہمیشہ اس قسم کے مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ متبادل امکانات پر بھی غور کیا جانا چاہیے اور دیکھا جانا چاہیے کہ یہ کس حد تک قابل عمل ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہم ان تمام متبادل امکانات پر غور کریں گے اور ان تک پہنچنے کی جدوجہد کریں گے‘۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی فوجی آپریشنز نے القاعدہ سے قریبی نظریاتی وابستگی رکھنے والے پاکستانی طالبان کو کافی حد تک کمزور کر دیا ہے تاہم فوج طالبان تحریک کی کمر توڑنے میں ناکام رہی ہے۔

میاں نواز شریف عسکریت پسندی کے خلاف امریکی جنگ کا ساتھ دینے سے متعلق سابق حکومت کی حکمت عملی اور اُس کے نقطہ نگاہ کا از سر نو جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ ایک انتخابی مہم کے لیے روانہ ہونے سے پہلے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے شریف نے کہا کہ کسی نہ کسی کو تو ان مسائل کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ اُن کے بقول،’تمام فریقوں کو مل بیٹھ کر تمام پارٹیوں کے تحفظات اور اُن کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہو گی اور اُس کے بعد ایک ایسا فیصلہ کرنا ہو گا، جو پاکستان اور عالمی برادری دونوں کے بہترین مفاد میں ہو‘۔

Pakistan Wahlen Unterstützer von Nawaz Sharif
شریف کا پکا ووٹ بینکتصویر: Arif Ali/iAFP/Getty Images

نواز شریف کے یہ بیانات امریکا کی برہمی کا سبب بن سکتے ہیں، جو اسلام آباد کو زیر دباؤ لاتا رہا ہے کہ وہ اُس داخلی عسکریت پسندی کو پسپا کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات کرے، جس میں طالبان اسلام کے بارے میں اپنے تصورات اور نظریات کو پھیلانے کی بھی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان افغان طالبان کو شکست دینے میں بھی مدد کرے۔

امریکا چاہتا ہے کہ اگلے ہفتے پاکستان کے مجوزہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد امن و سکون سے ہو، تاکہ 2014ء میں پڑوسی ملک افغانستان سے امریکی قیادت میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں سلامتی کی صورتحال مستحکم ہو۔

نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ ن نے سبکدوش ہونے والی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ناکامیوں اور عوام میں وسیع پیمانے پر مایوسی کا سبب بننے والی اس کی کارکردگی سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ خاص طور سے ملک میں توانائی کے بحران، لوڈ شیڈنگ اور بڑھتی ہوئی غربت جیسے مسائل نے عوام کے اندر پی پی پی کی مخالفت میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔

اُدھر لاہور میں نواز شریف کی ذاتی رہائش گاہ کے آس پاس غربت کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اُن کی محل نما رہائش گاہ کے وسیع و عریض اور سر سبز لان میں مور چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے پُر تعیش گھر میں متعدد سابق امریکی صدور کے ساتھ اُن کی تصاویر فریموں میں لگی دیواروں کی زینت بنی ہوئی ہیں، جن میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ بھی نواز شریف کی ایک تصویر شامل ہے۔

Pakistan Ex-Präsident Pervez Musharraf
اس بار کے انتخابات میں پرویز مشرف بھی قسمت آزمانا چاہتے تھےتصویر: imago stock&people

فوجی دخل اندازی سے خبردار

امیر اور صنعت کار گھرانے میں پیدا ہونے والے میاں نواز شریف پاکستان کی نشیب و فراز سے عبارت تاریخ کی روشنی میں سیاست میں فوج کی مداخلت اور سول حکومت کے خلاف بغاوت کی عادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ نہایت جذباتی انداز میں انہوں نے 1999ء کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’وہ پاکستان کے لیے ایک بہت بُرا دن تھا‘۔ یہ اُس روز کا ذکر ہے، جب سابق آمر حکمران ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ شریف نے کہا کہ مشرف کی غلطیوں سے اُن تمام عناصر کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو حکومتی سازشوں اور جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں، ایک ایسے ملک میں جس کی کُل تاریخ کا نصف حصہ فوجی حکومت کے مختلف ادوار سے عبارت ہے۔ نواز شریف کے بقول،’پاکستان اس وقت تبدیلی کے ایک دور سے گزر رہا ہے‘۔ میاں نواز شریف جو 1980ء کے عشرے میں ایک آمر فوجی حکمران کا لگایا ہوا پودا سمجھے جاتے ہیں، آج فوجی آمریت کے سب سے بڑے ناقد بنے ہوئے ہیں‘۔

km/aa (Reuters)