1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپ میری بہن جیسی ہیں

8 ستمبر 2021

یہ جملہ 'آپ میری بہن جیسی ہیں‘ یا اس سے ملتے جلتے جملے میں نے اپنی زندگی میں لاتعداد بار سنے ہیں۔ یہ جملہ ہمارے معاشرے میں اتنا رچ بس چکا ہے کہ اسے ہی اعلی تہذیب اور عزت و احترام کا بلند درجہ سمجھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4048P
تصویر: Privat

اس جملے میں قطعاً کوئی برائی نہیں ہے اور میں خود بھی شکرگزار ہوں، ان سب کی جنہوں نے مجھے اتنی عزت کے قابل سمجھا۔ مگر ماضی قریب میں ہونے والے کچھ حادثات نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ کہیں ہم نے لفظ 'بہن‘ کو اتنی عزت تو نہیں دے دی کہ کسی خاتون کے لیے با بحیثیت انسان عزت کی گنجائش ہی ختم کر دی ہو؟

عزت و احترام سے پیش آنا تو بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے اور ہر انسان یکساں طور پر اس کا حقدار بھی ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

میرے خیال میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے نئی نسل کو یہ بتانا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہر خاتون احترام کی یکساں حقدار ہے، چاہے وہ آپ کی بہن ہو، کلاس فیلو ہو، ٹیچر ہو، ہمسائی ہو، کولیگ ہو، کوئی بھی رشتے دار ہو، حتی کہ بالکل انجان ہی کیوں ہو۔

یہ مختصر سا لفظ 'بہن‘ مشکل تب پیدا کرتا ہے جب ہم اسے صرف اپنی منشا کے مطابق کسی کو عنایت کرتے ہیں۔ بہن کی تعریف سب کے ذہن میں یکساں نہیں ہے۔ کسی کے خیال میں بہن وہ ہے جو گھر میں ہے جب کہ جو گھر سے باہر نظر آئے، خاص طور پر کسی ریستوران، تفریحی مقام، دفتر یا بس میں، وہ بہن نہیں ہے اور نہ ہی اس کی عزت کرنا لازمی ہے۔ 

بعض افراد نے اس تعريف کو پہناوے سے جوڑ رکھا ہے۔ بہن وہ ہے جس نے ان کے سوچے ہوئے لباس کے مطابق کپڑے پہنے ہوئے ہوں۔ اگر بازار سکول یا یونیورسٹی میں کوئی اس مقررہ سانچے سے مختلف یا قدرے ماڈرن ملبوس میں نظر آئے تو وہ بھی بہن نہیں ہو سکتی اور ظاہر ہے کہ پھر اس کی عزت کرنا بھی فرض نہیں ٹھہرا۔

اس لفظ کی عزت کی شدت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے که منفی انداز میں بھی اس کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص کر جب کسی کی غیرت کو للکارنا مقصد ہو۔ گالم گلوچ سے بددعاؤں تک دونوں فریقین اس رشتے کو سب سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔

سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ خواتین کو کردار کا سرٹیفیکیٹ دینے کا بیڑا بھی مرد حضرات نے خود اٹھا رکھا ہے، جو یہ سرٹیفکیٹ جیت جائے وہی دل سے بہن کہلائے اور عزت بھی پائے۔ حال ہی میں کچھ شرمناک حادثات کے بعد بہت سے لوگوں نے متاثرہ خاتون کی کردار کشی کرتے ہوئے ایسے ہی موازنہ کیا کہ اس تفریحی مقام پر جو بہنیں اچھے لباس میں آتی ہیں، ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

بہت سی بہنیں خود بھی مختلف ویڈیوز میں یہ کہتی نظر آئیں کہ چونکہ وہ کبھی' غلط‘  لباس نہیں پہنتیں لہذا وہ بلند کردار کی حامل ہیں اور وہ ایسے تمام جرائم اور حادثات سے محفوظ رہتی ہیں۔ میری دلی دعا ہے کہ ان کا یہ گمان ہمیشہ قائم رہے۔

ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سب کو یہ ضرور یاد رہتا ہے کہ متاثرہ خواتین  میں سے کون بہن 'با کردار‘ ہے اور کون نہیں، مگر یہ بات بہت جلد بھلا دی جاتی ہے کہ یہاں کسی بھائی کا بھی کوئی قصور تھا۔ عورت کی کردارکشی کرتے ہی ہم سمجھتے ہیں کہ اصل مجرم بے گناہ ثابت ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ عورت قتل بھی ہو تو عورت کا کردار کئی دن تک زیر بحث رہتا ہے اور مجرم کو مزید شہ ملتی ہے۔

خیر اس نقطے پر پھر کبھی تفصیل میں جائیں گے کہ جب تک مجرم کو مجرم نہیں ثابت ہونے دیں گے یہ جرائم رک نہیں سکتے۔ وہ جرائم جن کا شکار نومولود بچوں سے لے کر تدفین شدہ لاشیں بن چکی ہیں، جہاں کردار کیا زندگی کا بھی سوال  نہیں تھا۔

اس وقت اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آپ اپنی مرضی سے منتخب خواتین کو بہن سمجھ کر باقی سب سے عزت کا حق چھین نہیں سکتے۔ اس طرح تو معاشرہ مزید بےراہ روی کا شکار ہو گا۔

جب تک ہم عورت کو صرف اس لیے عزت دینے کو تیار نہیں ہوں گے کہ وہ ایک خاتون ہے، ایک انسان ہے اور ہر رشتے اور ہر کردار میں یکساں عزت کی حقدار ہے، ہم نئی نسل کو اقبال کا وہ شاہین نہیں بنا سکتے، جس کے ہاتھ میں ملک کا مستقبل ہے.

خدارا بہن کو عزت ضرور دیں، مگر عزت کو صرف بہن تک محدود نہ کریں۔