اب ’سنی‘ بھی اسلامک اسٹیٹ کے نشانے پر
26 جولائی 2014شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ آئی ایس نے صوبہ دیالہ میں سنیوں کے پانچ گروپوں کو 48 گھنٹے تک کا وقت دیا ہے۔ اس دوران ان گروپوں کو یا تو اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے یا پھر انہیں صوبے سے نقل مکانی کرنا پڑے گی۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق مزاحمت کرنے کی صورت میں سزاؤں کی بھی دھمکی دی گئی ہے۔
شدت پسند تنظیم نے اس سے قبل اپنے زیر قبضہ شہر موصل میں آباد مسیحی برادری کو مذہب تبدیل کرنے یا جزیہ دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ انکار کرنے کی صورت میں انہيں سزائے موت دے دی جائے گی۔ اس کے بعد مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد شہر سے ہجرت کر گئی تھی۔
اس سے قبل آئی ایس نے شام میں دمشق حکومت کے خلاف لڑنے والے تمام سنی گروپوں سے آئی ایس میں ضم ہو جانے اور اپنی شناخت ختم کرنے کا کہا تھا۔ عراق میں بھی اب انہوں نے یہی حکمت عملی اپنائی ہے۔ عراق میں متعدد سنی گروپوں نے آئی ایس کا ساتھ دیا تھا اور ان کے تعاون کے بغیر یہ شدت پسند اتنی تیزی سے اتنے بڑے علاقے پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔
جون کے آخر میں عراق اور شام کے زیر قبضہ علاقوں میں خلافت قائم کرنے کے ساتھ اس گروپ نے اپنا نام اسلامک اسٹیٹ رکھ لیا ہے۔ ورنہ یہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا کے نام سے جانی جاتی تھی۔
آئی ایس کے شدت پسندوں نے شمالی صوبے نینوا میں موجود مذہبی اور ثقافتی ورثے کو بھی تباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ تمام چیزیں قرآنی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اس گروپ کی جانب سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں حضرت یونس کی مزار کو مسمار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عقائد کے مذہبی مقامات کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ساتھ ہی آئی ایس کی جانب سے شیعہ آبادی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جمعے کو ایک امام بارگاہ پر ہونے والے بم دھماکے میں چار افراد ہلاک اور انیس زخمی ہو گئے۔
دوسری جانب کل جمعے کے روز اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ میں شامی فوج کے تقریباً 50 فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ آئی ایس نے مرنے والے فوجیوں کی تعداد 75 بتائی ہے۔ آئی ایس کے بیان کے مطابق ’’سترہویں ڈویژن کے 75 فوجیوں کو حراست میں لے کر ان کے سر قلم کر دیے گئے ہیں‘‘۔ یہ واقعہ الرقہ صوبے میں پیش آیا۔