1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشام

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کے شام پر 300 حملے

10 دسمبر 2024

شام میں جنگی حالات پر نگاہ رکھنے والے ادارے کے مطابق اسرائیل نے بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے شام پر 300 سے زائد حملے کیے ہیں۔ اسرائیل نے ایسی کارروائیوں میں شام کے ’انتہائی اہم فوجی مقامات کو تباہ‘ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4nwuG
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے 300 سے زیادہ اسرائیلی حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے 300 سے زیادہ اسرائیلی حملے ریکارڈ کیے گئے ہیںتصویر: Xinhua News Agency/picture alliance

سن 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی تحریک اور پھر خانہ جنگی کے بعد سے اسرائیل شام پر سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔ تاہم اب بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد اسرائیل نے اس ملک میں اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔

شام کے جنگی حالات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے 300 سے زیادہ اسرائیلی حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

 نیوز ایجنسی اے ایف پی کے صحافیوں نے منگل کو بھی دارالحکومت دمشق میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی لیکن وہ آزادانہ طور پر ان حملوں یا ان کے دائرہ کار کی تصدیق نہیں کر سکے۔

پیر کو اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے شام میں ''بقیہ کیمیائی ہتھیاروں یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں اور راکٹوں کو نشانہ بنایا ہے تاکہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھ میں نہ آئیں۔‘‘

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے 300 سے زیادہ اسرائیلی حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے 300 سے زیادہ اسرائیلی حملے ریکارڈ کیے گئے ہیںتصویر: Xinhua News Agency/picture alliance

آبزرویٹری کے مطابق، جس کا نیٹ ورک شام بھر میں پھیلا ہوا ہے، کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں نے ''شام میں سب سے اہم فوجی مقامات کو تباہ کر دیا ہے۔‘‘ اس گروپ نے کہا کہ حملوں میں ہتھیاروں کے ڈپو، اسد حکومت کی بحریہ کی کشتیوں اور ایک تحقیقی مرکز کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بارے میں مغربی ممالک کو شُبہ ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

اسرائیل نے بندرگاہی شہر لطاکیہ کے قریب ایک فضائی دفاعی تنصیب کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ شامی بحریہ کے جہازوں اور فوجی گوداموں کو بھی نقصان پہنچایا۔

اسی طرح دارالحکومت دمشق میں اور اس کے گرد و نواح میں ہونے والے حملوں میں فوجی تنصیبات، تحقیقی مراکز اور 'الیکٹرانک وار فئیر‘ کی انتظامی سہولیات کو نشانہ بنایا گیا۔

دمشق میں موجود اے ایف پی کے صحافی شام میں حکومتی اتھارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے  اسرائیلی حملوں پر شام کی طرف سے کوئی تبصرہ حاصل کرنے سے قاصر رہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کو کہا تھا کہ گولان کی پہاڑیاں، جو تقریباً 60 سال سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں، ہمیشہ اسرائیل کا حصہ رہیں گی
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کو کہا تھا کہ گولان کی پہاڑیاں، جو تقریباً 60 سال سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں، ہمیشہ اسرائیل کا حصہ رہیں گیتصویر: Kobi Gideon/Israel Gpo via ZUMA Press Wire/picture alliance

اسرائیل نے بھی اسد حکومت کے زوال کے بعد اپنے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے مشرق میں ایک بفر زون میں بھی فوج بھیج دی ہے۔ اس طرح اسرائیل نے دراندازی کرتے ہوئے بفر زون کو مزید وسعت دے دی ہے۔ تاہم اسرائیل نے کہا ہے کہ ایسا ''سکیورٹی وجوہات‘‘ کی بنا پر ''محدود اور عارضی‘‘ طور پر کیا گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیر کو کہا تھا کہ گولان کی پہاڑیاں، جو تقریباً 60 سال سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں، ہمیشہ اسرائیل کا حصہ رہیں گی۔

 اقوام متحدہ نے کہا کہ اسرائیل 1974 کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس بیان کے بعد اسرائیل کے اتحادی امریکہ نے بھی کہا کہ یہ دراندازی ''عارضی‘‘ ہونی چاہیے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں کو بتایا، ''اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ کارروائیاں اس کی سرحدوں کے دفاع کے لیے عارضی ہیں اور یہ مستقل کارروائیاں نہیں ہیں۔ ہم اسرائیل اور شام کے درمیان پائیدار استحکام دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ ہم 1974 کے معاہدے کو برقرار رکھنے والے تمام فریقین کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

ا ا / ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)