1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسعودی عرب

اسرائیلی صحافی کو مکہ لے جانے والا سعودی شہری گرفتار

22 جولائی 2022

سعودی پولیس کے مطابق ایک اسرائیلی صحافی کو خفیہ طور پر مکہ لے جانے والے سعودی شہری کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سعودی قوانین کے تحت مکہ میں کسی غیرمسلم کا داخلہ ممنوع ہے۔

https://p.dw.com/p/4EWWo
Mekka - Muslimische Pilger versammeln sich auf dem Berg Arafat in der Nähe von Mekka
تصویر: MOHAMMED AL-SHAIKH/AFP/Getty Images

مکہ پولیس کی جانب سے اسرائیلی صحافی کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ ایک سعودی شخص کو گرفتار کرتے ہوئے پبلک پراسیکیوٹرز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ سعودی نیوز ایجنسی ایس پی اے نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ''اس شہری نے ایک غیر مسلم صحافی کو، جس کے پاس امریکی شہریت ہے، کو مسلمانوں کے لیے مختص کردہ راستے سے مقدس شہر مکہ میں پہنچایا، جو قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘

پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''مملکت میں آنے والے تمام افراد کو ضوابط کا احترام اور ان کی پابندی کرنا ہو گی، خاص طور پر مقدس مقامات کے متعلق ضوابط کی۔ کسی بھی خلاف ورزی کو جرم سمجھا جائے گا اور ایسا برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

مزید بتایا گیا ہے کہ رپورٹر کا کیس ''جس نے یہ جرم کیا تھا‘‘ کو بھی پبلک پراسیکیوٹرز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

چند روز قبل ہوا کیا تھا؟

اسرائیل کے چینل 13 نیوز نے دس منٹ دورانیے کی ایک رپورٹ نشر کی تھی، جس میں ایک یہودی صحافی گِل تمرے مسجد الحرام کی طرف سفر کرتا ہے اور جبل رحمت پر بھی چڑھتا ہے۔ سعودی قوانین کے تحت کسی غیر مسلم کا اس جگہ داخلہ ممنوع ہے۔

اسرائیلی صحافی کے ساتھ بظاہر ایک مقامی گائیڈ بھی موجود تھا، جس کا چہرہ ویڈیو میں دھندلا دیا گیا تھا تاکہ اس کی شناخت ظاہر نہ ہو۔ گل تمرے کیمرے کے سامنے ہیبرو زبان میں آہستہ آواز کے ساتھ بولتے ہیں اور بعض اوقات وہ اپنی اسرائیلی شناخت چھپانے کے لیے فورا انگریزی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس رپورٹ کے نشر ہونے کے بعد ہی ٹویٹر پر ''اے جیو اِن مکاز گرینڈ ماسک‘‘ ٹرینڈ کرنے لگا تھا۔

اسرائیل کے حامی سعودی کارکن محمد سعود نے ٹویٹر پر کہا، ''اسرائیل میں میرے پیارے دوستو! آپ کا ایک صحافی اسلام کے مقدس شہر مکہ میں داخل ہوا اور وہاں اس نے بے شرمی سے فلم بنائی۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ''چینل 13 دین اسلام کو اس طرح ٹھیس پہنچانے پر تم کو شرم آنی چاہیے، تم بدتمیز ہو۔‘‘

تمرے گزشتہ جمعے کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کے دورے کی کوریج کے لیے جدہ میں موجود تھے۔  تاہم آن لائن شدید احتجاج کے بعد مذکورہ صحافی نے بھی اس معاملے پر معافی مانگ لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔

تمرے نے ٹویٹر پر لکھا ہے، ''اگر کسی کو یہ ویڈیو بری لگی ہو تو میں دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں۔ اس پوری کوشش کا مقصد مکہ کی اہمیت اور دین اسلام کی خوبصورتی کو ظاہر کرنا تھا اور ایسا کرتے ہوئے مذہبی رواداری اور شمولیت کو فروغ دینا تھا۔‘‘

 قبل ازیں اسرائیل کے وزیر برائے علاقائی تعاون ایساوی فریج نے بھی اسرائیلی ٹی وی کی اس رپورٹ کو 'احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔

اسرائیلی وزیر کے مطابق صحافی کی اس حرکت کے اسرائیل کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر ایساوی فریج کا سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''مجھے افسوس ہے (لیکن) ایسا کرنا اور پھر اس پر فخر کرنا ایک احمقانہ چیز تھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''صرف ریٹنگ کی خاطر اس رپورٹ کو نشر کرنا غیر ذمہ دارانہ اور نقصان دہ تھا۔‘‘

سعودی حکومت نے ابھی تک اسرائیل کو سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا۔ ریاض حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے ایک الگ فلسطینی ریاست کا قیام چاہتی ہے۔

ا ا / ر ب ( ڈی پی اے، روئٹرز)