اسلحے کی فروخت: ايران، عراق معاہدے پر امریکی تشويش
25 فروری 2014نيوز ايجنسی روئٹرز نے چند خفيہ دستاويزات کا حوالہ ديتے ہوئے لکھا ہے کہ اِن دستاويزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ايرانی ’ڈيفنس انڈسٹريز آرگنائزيشن‘ کے ساتھ کُل چھ معاہدوں کو حتمی شکل دی گئی ہے، جن کے تحت عراق کو ہلکے اور درميانے درجے کے ہتھيار فراہم کيے جائيں گے۔ ديگر ساز و سامان کے ليے ایران کے سرکاری ادارے ’ايران اليکٹرانک انڈسٹريز‘ کے ساتھ بھی دو معاہدوں پر دستخط کيے گئے ہیں۔
روئٹرز کی بغداد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان معاہدوں پر دونوں ممالک کی دفاع کی وزارتوں کے اہلکاروں نے دستخط کيے ہیں تاہم دستاويزات ميں اس حوالے سے کوئی وضاحت نہيں کی گئی کہ ہتھياروں کی یہ فراہمی کب اور کيسے عمل میں آئے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی نظروں سے گزرنے والی ان دستاويزات کے مطابق ان معاہدوں کے حوالے سے حتمی سمجھوتہ گزشتہ برس نومبر ميں کسی وقت طے پايا تھا۔ سمجھوتے سے دو ہفتے قبل عراقی وزير اعظم نوری المالکی نے امريکا کا دورہ کيا تھا، جس ميں انہوں نے عراق ميں دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ کے خلاف جاری لڑائی کے ليے اوباما انتظاميہ سے اضافی ہتھياروں کا مطالبہ بھی کيا تھا۔
واشنگٹن ميں کچھ حلقے ايک ايسے ملک کو، جو ايران کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے، امريکی فوجی ساز و سامان مہيا کرنے کے سلسلے ميں خدشات کا شکار ہيں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق متعدد عراقی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ المالکی نے معاہدے کو حتمی شکل اس ليے دی کہ وہ امريکا کی جانب سے ہتھياروں کی فراہمی ميں تاخير سے تھک چکے ہيں۔
عراقی وزير اعظم کے ترجمان علی موسوی نے اس بارے ميں بيان ديتے ہوئے نہ تو ان معاہدوں پر دستخطوں کی تصديق کی ہے اور نہ ہی انہيں مسترد کيا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عراق کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئی ايسی کوئی بھی ڈیل قابل فہم ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کر رہے ہيں اور ہم اس جنگ کو جيتنا چاہتے ہيں۔ ہميں کسی فريق سے ہتھيار خريدنے کے سلسلے ميں کسی رکاوٹ کا سامنا نہيں اور پھر يہ صرف دہشت گردوں سے لڑنے کے ليے ہتھيار ہی تو ہيں۔‘‘
ايران نے عراق کو اسلحے کی فروخت سے متعلق کسی بھی دوطرفہ معاہدے کی تردید کی ہے۔
اس بارے میں امريکی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کی ترجمان جينيفر ساکی نے کہا کہ اگر يہ خبر سچ نکلی، تو يہ باعث تشويش بات ہے۔ ساکی نے ايک نيوز بريفنگ میں صحافیوں کو بتایا، ’’ايران سے کسی بھی دوسرے ملک کو ہتھياروں کی منتقلی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1747 کی براہ راست خلاف ورزی ہوگی۔ ہم بغداد حکومت سے اس معاملے پر وضاحت طلب کر رہے ہيں۔‘‘
اس بريفنگ کے دوران جب يہ سوال اٹھايا گيا کہ آيا واشنگٹن کی جانب سے بغداد کو ہتھياروں کی فراہمی ميں تاخير کے سبب يہ ممکنہ ڈيل طے پائی، تو اس کے جواب ميں ساکی نے کہا کہ امريکی حکومت عراق کے ساتھ تعاون کے معاملے ميں پرعزم ہے اور عسکری ساز و سامان کی مد ميں پندرہ بلين ڈالر سے زيادہ ادا کر چکی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کے بقول عراق کو انسداد دہشت گردی سے متعلق ساز و سامان کی فراہمی تيز تر کرنے کی کوششيں جاری ہيں۔
ماہرین کے مطابق اگر يہ معاہدے حقيقی ثابت ہوئے، تو يہ اسلحے کی فروخت سے متعلق شيعہ ايرانی انتظاميہ اور عراق کی شيعہ حکومت کے مابين طے پانے والے پہلے باقاعدہ معاہدے ہوں گے۔