1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افسوس! زیادہ تر لاپتہ افراد کی لاشیں ہی ملیں‘

فرید اللہ خان، پشاور1 جنوری 2015

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار ایک سو انچاس تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ برس لاپتہ افراد کے ڈھائی سو کیسز سامنے آئے ہیں اور ان میں سے تقریباﹰ ایک سو کی لاشیں ملیں۔

https://p.dw.com/p/1EDqk
Aktivistin Amina Janjua Masood
تصویر: DW/M. A. Sumbal

لاپتہ افراد کی بازیابی اور رہائی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے پاس لاپتہ افراد سے متعلق اکیس سو کیسز رجسٹرڈ ہیں جبکہ حکومتی کمیشن میں تین ہزار تینتیس کیسز سامنے آچکے ہیں۔ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے پاس رجسٹرڈ اکیس سو لاپتہ افراد میں سے خیبر پختونخوا کے لاپتہ افراد کی تعداد آٹھ سو ہیں، جن میں سے ڈیڑھ سو کے قریب رہا ہوچکے ہیں۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چئیر پرسن آمنہ جنجوعہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ”سال 2014ء کے دوران ڈھائی سو کے قریب کیسز سامنے آچکے ہیں اور اس میں بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سو سے زیادہ کی ڈیڈ باڈیز ملی ہیں، جو سارے ایک سال میں مارے گئے ان کی کوئی میڈیکل رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی۔ ان کا کوئی ٹرائل نہیں ہوا جبکہ ان کے پوسٹ مارٹم کی بھی اجازت نہیں تھی، کچھ نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کا یہ موقف ہے کہ ہر چیز صاف ہونی چاہیے، شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہیں۔ پاکستان کے آرٹیکل دس اے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ہر ایک کا مقدمہ منصفانہ طریقے سے چلایا جائے گا۔ “

Aktivistin Amina Janjua Masood
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ جنجوعہتصویر: DW/M. A. Sumbal

سب سے زیادہ تعداد میں افراد خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے لاپتہ ہوئے۔ اب جبکہ پاکستان میں فوجی عدالتیں بننے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، ایسے میں انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں ان خدشات کا اظہار کررہی ہیں کہ لاپتہ افراد کو انہی عدالتوں میں پیش کر کے سزا دی جائی گی۔ جب ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ جنجوعہ سے یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا، ”مسنگ کا مطلب یہی ہے کہ اس کو آپ نے آئین اور قانون کا حق نہیں دیا۔ یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر اس طرح آپ اس کو دفاع کا حق دیے بغیر اُس کا ٹرائل کریں گے اور اگر یہ ٹرائل یکطرفہ ہوگا تو یقیناﹰ اس میں بے گناہ بھی ماریں جائیں گے۔ اس کا بہتر حل یہ ہے کہ آرمی کورٹس میں صرف آرمی نہ ہو بلکہ اس میں سیاسی لوگ بھی ہوں، وکلاء، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہوں، جو اس بات کا پتہ ک رسکیں کہ آیا یہ بندہ بے گناہ ہے اور اگر بے گناہ ہو تو اس کی جان کو خطرے میں ڈالے اور ٹارچر کیے بغیر اُسے رہا کیا جائے۔ اور اگر وہ مجرم ہے تو اس کو اس کے جرم کے مطابق سزا دی جائے۔ یہ نہ ہوں کہ جرم اس نے چھوٹا سا کیا ہواور اسے جان سے مار دیا جائے۔ “

دوسری جانب معروف قانون دان اور پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سکریٹری جنرل امین الرحمان ایڈوکیٹ سے جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ”ملٹری کورٹس ہو یا عام عدالتیں، یہ جج پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر انصاف فراہم کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بھی ٹرائل ہو اس میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ملٹری کورٹس کا فیصلہ ایک جمہوری اور منتخب حکومت نے کیا ہے۔ اس لیے عدلیہ بھی اس کا جائزہ لے رہی ہے اور اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو سپریم کورٹ تو سپریم ہے وہ سو موٹو ایکشن بھی لے سکتی ہے اور ان کے پاس جوڈیشل ریویو پاورز بھی ہیں۔ تاہم ہم چاہتے ہیں کہ مسِنگ پرسنز کی اصطلاع ختم ہو اور ہر شہری کو انصاف ملے ۔“

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں ہزاروں افراد مارے گئے وہاں ایک بڑی تعداد میں مرد، بچے اور بوڑھے معذور بھی ہوئے لیکن ہزاروں کی تعداد میں ایسے بھی ہیں جو زندہ لاپتہ ہیں اور ان کے رشتہ دار آئے روز سڑکوں پر انصاف کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو سامنے لاکر ان کا منصفانہ ٹرائل کیا جائے اور انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔