افطاری کے وقت خود کش حملہ، تینتیس افراد ہلاک
13 جولائی 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں ستائیس شہری جبکہ چھ سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ اتوار کی شام یہ خود کش حملہ خوست صوبے میں واقع ’کیمپ چیمن‘ کے قریب کیا گیا۔ اس کیمپ میں مقامی دستوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی فوجی بھی تعینات ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ افطاری سے کچھ وقت قبل ہی یہ خود کش دھماکا کیا گیا۔
صوبائی حکومت کے ترجمان مبارز زردان نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ اس خونریز حملے میں تینتیس افراد مارے گئے ہیں۔ قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ اس کارروائی میں اٹھارہ افراد لقمہ اجل بنے۔ زردان کے مطابق، ’’اس حملے میں بارہ بچوں کے علاوہ تین خواتین بھی ہلاک ہوئیں۔‘‘
ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن افغان طالبان ماضی میں اسی طرح کی کارروائیوں میں افغان اور غیر ملکی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین باقاعدہ براہ راست مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی ملاقات پاکستانی حکومت کی میزبانی میں گزشتہ ہفتے ہی ہوئی تھی۔
کابل حکومت کی طرف سے قیام امن کی کوششوں کے باوجود اس شورش زدہ ملک میں پرتشدد واقعات میں اب تک کوئی کمی نہیں ہو سکی۔ اختتام ہفتہ پر خوست میں دو مختلف بم دھماکوں میں بھی بارہ افراد مارے گئے تھے۔ افغان حکام نے سڑک کنارے ہونے والے ان حملوں کی ذمہ داری طالبان باغیوں پر عائد کی ہے۔
طالبان باغیوں نے اپریل میں ملک بھر میں اپنے سالانہ حملوں کا آغاز کیا تھا، جس میں طالبان کے مطابق عدلیہ، سکیورٹی اہلکاروں اور غیر ملکی افواج کے خلاف کارروائی کو بنیادی فوقیت دی گئی تھی۔ تاہم ان حملوں میں مارے جانے والے زیادہ تر افراد عام شہری ہی ہیں۔ افغانستان میں قائم اقوام متحدہ کے مشن نے بتایا ہے کہ رواں برس کے پہلے چار ماہ کے دوران طالبان کی مسلح کارروائیوں میں ہلاک ہونے والےافغان شہریوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد رہی۔