افغان امن مذاکرات کا نیا دور اسلام آباد میں جاری
6 فروری 2016پاکستانی دارالحکومت میں آج صبح شروع ہونے والے یہ چہار فریقی مذاکرات اصل میں اُن کوششوں کا عملی پہلو ہیں، جو گلوبل کمیونٹی شورش زدہ ملک افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام اور امن و سلامتی کی فضا قائم کرنے کے لیے کر رہی ہے۔
ان مذاکرات کا مقصد عسکریت پسند طالبان کو امن مذاکرات میں شرکت پر آمادہ کرنا ہے تاکہ وہ کابل حکومت کے ساتھ معاملات کو طے کرے اور پُرتشدد حالات کی جگہ افغانستان میں امن کی فضا پیدا ہو سکے۔ ان مذاکرات میں چاروں ملکوں کے نمائندے ایک نظام الاوقات طے کرنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں تاکہ اُس پر عمل پیرا ہو کر متحارب فریقین پندرہ برسوں سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ کر سکیں۔
آج کے مذاکرات کے آغاز پر پاکستان وزیراعظم کے مشير برائے خارجہ امور سرتاج عزيز نے کہا تھا کہ بات چيت کے ليے بظاہر کوئی پیشگی شرائط نہيں ہونی چاہييں تاہم افغان طالبان نے يہ کہا ہے کہ وہ کابل حکومت سے بات چیت کرنے سے پہلے امريکی اہلکاروں سے بات چيت کرنا چاہيں گے۔ سرتاج عزیر نے اِس امید کا بھی اظہار کیا کہ مذاکراتی عمل سے افغانستان میں پرتشدد حالات و واقعات میں کمی ممکن ہو سکے گی۔ چار فریقی مذاکرات کے پچھلے تمام ادوار بغیر کسی خاص پيش رفت کے ختم ہو گئے تھے۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سینیئر رکن عبدالحکیم مجاہد کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کے امکانات کافی زیادہ ہیں کیونکہ اس عمل میں امریکا اور چین شامل ہو کر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ عبدالحکیم مجاہد کا خیال ہے کہ امریکا اور چین اسلام آباد اور کابل کی حکومتوں پر جو خاص اثر رکھتے ہیں، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور ایسے میں امریکا اور چین کی جانب سے اسلام آباد حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے کہ وہ مسلح عسکریت پسندوں کی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مؤثر کردار ادا کرے۔
پاکستان اور افغانستان کے سیاسی معاملات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار نذر محمد مطمئن کا کہنا ہے کہ طالبان کے اندرونی دھڑوں میں اختلافات میں غیر معمولی کمی اور یونٹی کے عمل سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور انہیں مذاکرات میں شرکت کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ ایام میں طالبان کے اندر اختلافات کی جگہ صلح جوئی نے لے لی ہے اور منقسم و منحرف دھڑے کے جنگی سردار اور کمانڈر ملا اختر منصور کی قیادت میں پھر جمع ہونے لگے ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ چند ماہ سے افغان طالبان نے کئی اضلاع میں حکومتی فوج پر اپنا دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ کئی مغربی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ طالبان کی قیادت کمزور ہو سکتی ہے لیکن اُن کی تحریک بہت مضبوط ہے۔