افغان انٹیلیجنس کے سربراہ کو علاج کے لیے بیرون ملک لے جایا جائے گا
10 دسمبر 2012پیر کے روز افغان صدر حامد کرزئی نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کو بتایا کہ افغان انٹیلیجنس کے سربراہ اسد اللہ خالد کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ خالد کو کابل کے قریب ایک امریکی فوجی ہسپتال میں رکھا گیا ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ خالد کو علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجا جا رہا ہے۔ تاہم صدارتی محل کی جانب سے جاری کردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ افغان انٹیلیجنس کے سربراہ کو علاج کے لیے کس ملک بھیجا جائے گا۔ چونکہ خالد کے خاندان کے بعض افراد امریکا میں مقیم ہیں، لہٰذا اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ ان کو علاج کے لیے امریکا ہی بھیجا جائے گا۔
خالد کو جمعرات کے روز ایک طالبان عسکریت پسند نےخود کو طالبان امن کمیٹی کا رکن ظاہر کرتے ہوئے ایک خود کش بم حملے میں زخمی کر دیا تھا۔ اس عسکریت پسند نے بم اپنے کپڑوں میں چھپایا ہوا تھا۔ افغان حکومتی اہلکاروں کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں خالد کے پیٹ پر زخم آئے ہیں۔
ایک افغان اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ افغان انٹیلیجنس کے سربراہ ہوش میں ہیں تاہم انہیں بات کرنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے۔ امریکی ڈاکٹروں کا حوالہ دیتے ہوئے اس اہلکار نے کہا کہ اسد اللہ خالد کو کم از کم تین ماہ تک ہسپتال میں رہنا پڑ سکتا ہے۔
افغان صدر نے اسد اللہ خالد پر حملے کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک سرکاری کمیٹی تشکیل دینے کا حکم بھی دے دیا ہے۔
افغان صدر کرزئی نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ خالد پر حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ افغان حکومت نے پاکستان پر اس نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔ اس سے قبل افغان حکام سابق افغان صدر اور مصالحتی کمیٹی کے سربراہ برہان الدین ربانی کے قتل کا الزام بھی پاکستان پر عائد کر چکے ہیں۔ پاکستان، جس پر الزام ہے کہ وہ بعض طالبان عسکریت پسندوں کی معاونت کر رہا ہے، اس طرح کے کسی بھی الزام کی تردید کرتا آرہا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے سے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر راکٹ حملوں کے تنازعے کی وجہ سے بھی دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات خراب ہیں۔
(shs / mm (AFP