افغان صدارتی الیکشن، رائے دہی مکمل ہو گئی
5 اپریل 2014اگر پہلے انتخابی مرحلے میں کل آٹھ امیدواروں میں سے کوئی بھی 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کر سکا تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو بڑے امیدواروں کے درمیان حتمی انتخابی مقابلہ 28 مئی کو ہو گا۔
موجودہ صدر حامد کرزئی دو مرتبہ صدر منتخب ہو چکے ہیں اور آئینی تقاضوں کے مطابق تیسری مرتبہ امیدوار نہیں ہو سکتے تھے۔ طالبان نے کئی ہفتے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ افغان شہری انتخابی مراکز کا رخ نہ کریں اور انتخابی عمل کو ناکام بنانے کے لیے بھرپور حملے کیے جائیں گے۔
طالبان کی اس دھمکی کے بعد آج رائے دہی کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں چند مقامات پر معمولی پرتشدد واقعات تو دیکھنے میں آئے تاہم عام شہری، انتخابی کارکن اور پولنگ اسٹیشن مجموعی طور پر بڑی خونریزی سے محفوظ رہے۔ اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
افغانستان میں آج صرف صدارتی الیکشن ہی نہیں بلکہ صوبائی کونسلوں کے لیے بھی رائے دہی عمل میں آئی، جس کے لیے صبح سات بجے سے لے کر سہ پہر چار بجے تک کا وقت رکھا گیا تھا۔ دن کے دوران ملک کے آزاد الیکشن کمیشن نے پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کی توسیع بھی کر دی تھی۔
شام پانچ بجے، جب عالمی وقت کے مطابق دن کے ساڑھے بارہ بجے تھے، تمام پولنگ اسٹیشن بند کر دیے گئے۔ وہ ووٹر جو اس وقت تک پولنگ اسٹیشنوں کے اندر موجود تھے یا باہر قطاروں میں کھڑے تھے، انہیں قواعد کے مطابق اپنا حق رائے استعمال کرنے کا موقع دیا گیا۔
قبل ازیں صدر کرزئی نے کابل میں اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے ہموطنوں پر زور دیا کہ وہ بھی ضرور ووٹ دیں۔ صدر کرزئی نے کہا، ’’عوام کو اپنے گھروں سے باہر نکل کر نئے ملکی صدر کا انتخاب کرنا چاہیے، دشمنوں کی دھمکیوں کے باوجود، کیونکہ بات افغانستان کی کامیابی کی ہے۔‘‘
اس الیکشن میں جو آٹھ امیدوار میدان میں ہیں، ان میں سے اصل مقابلہ تین بڑے امیدواروں کے درمیان ہے۔ یہ امیدوار سابق وزرائے خارجہ عبداللہ عبداللہ اور زلمے رسول اور سابق وزیر خزانہ اشرف غنی ہیں۔
افغانستان کی آبادی اندازہﹰ 28 ملین ہے، جس میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 13.5 ملین تھی۔ ملک کے کُل 398 اضلاع میں سے پانچ اضلاع میں تمام انتخابی مراکز سلامتی کی وجوہات کی بناء پر بند رہے۔ ان انتخابات پر اٹھنے والی لاگت کا اندازہ قریب 121.5 ملین ڈالر لگایا گیا ہے، جس کا مطلب ہے تقریباﹰ نو ڈالر فی ووٹر۔
صدارتی امیدواروں میں کوئی ایک بھی خاتون شامل نہیں ہے جبکہ صوبائی کونسلوں کی رکنیت کے کُل دو ہزار چھ سو کے قریب امیدواروں میں تین سو خواتین بھی شامل ہیں۔