افغان صدارتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ
14 جون 2014آج ہفتے کے روز افغانستان میں صدارتی الیکشن کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر یں گے۔ پہلے مرحلے کی طرح اندازہ لگایا گیا ہے کہ ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ دو جولائی کو افغانستان کا آزاد الیکٹورل کمیشن عبوری نتیجے کا اعلان کرے گا۔ حتمی نتیجہ بائیس جولائی کو عام کیا جائے گا۔ حتمی نتیجے کے بعد ہی نیا صدر اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکے گا۔
افغان ووٹرز سابق وزیر خارجہ اور تاجک نژاد عبداللہ عبداللہ اور پشتو آبادی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خزانہ اشرف غنی میں سے کسی ایک کو اپنے ملک کا صدر چنیں گے۔ آج منتخب ہونے والا صدر حامد کرزئی کی جگہ منصبِ صدارت پر بیٹھے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نئے صدر کے لیے منصب صدارت آسان نہیں ہو گا بلکہ نئے صدر کو کئی مشکل چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس میں سب سے اہم رواں برس کے اختتام پر بین الاقوامی فوجیوں کا انخلا ہے۔
آج کے انتخابات میں ووٹرز کو طالبان عسکریت پسندوں کی نئی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ افغان وزیر داخلہ عمر داؤد زئی کے مطابق دوسرے مرحلے کے لیے دھمکیوں کی نوعیت زیادہ شدید ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں افغان عوام نے ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ یا تھا اور طالبان کی دھمکیوں کو نظرانداز کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ امیدواروں اور اُن کے حامیوں کو ووٹنگ کے دوران فراڈ اور پولنگ کی بے ضابطگیوں کے خطرے کا بھی شدت سے احساس ہے۔ سن 2009 میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہونے والے صدارتی الیکشن کے دوران بےضابطگیوں کے سنگین الزامات اٹھائے گئے تھے۔
افغانستان کا الیکٹورل کمیشن اور کابل حکومت کے بین الاقوامی حلیف پہلے مرحلے کی طرح آج ہفتے کے روز بھی انتخابی عمل میں عوام کو جوق در جوق شریک ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں طالبان کی دھمکیوں اور مختلف پرتشدد واقعات کے باوجود ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب پچاس فیصد سے زائد تھا اور اِسے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا تھا۔ اسی طرح پولنگ فراڈ کے تناظر میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ جان کیوبِس نے امیدواروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پولنگ پر نظر رکھیں تاکہ سابقہ الیکشن کی طرح بیلٹ بکسوں کو جعلی ووٹوں سے بھرا نہ جائے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ہفتے کے صدارتی الیکشن کی تکمیل پر سن 2001 کے بعد پہلی مرتبہ اقتدار کی جمہوری انداز میں منتقلی کو بین الاقوامی برادری کی افغانستان میں جاری سیاسی و معاشرتی پروگراموں کی کامیابی سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا بھی خیال کیا گیا ہے کہ اقتدار کی منتقلی سے یقینی طور پر طالبان عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور عوام پرامید انداز میں مستقبل کی جانب دیکھ سکیں گے۔