1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

افغان طالبان کی سفارتی تنہائی ختم ہونے کو ہے؟

1 جولائی 2024

قطر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی دو روزہ کانفرنس کا مقصد افغان طالبان کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اس اجلاس میں طالبان کے ساتھ ساتھ تیس ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیوں کے نمائندے شریک ہیں۔

https://p.dw.com/p/4hin6
فائل فوٹو، طالبان کا ایک وفد دوحہ میں
فائل فوٹو، طالبان کا ایک وفد دوحہ میںتصویر: Stringer/REUTERS

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اس کانفرنس کا آغاز اتوار کو ہوا تھا اور اس کا اولین مقصد طالبان حکومت کے ساتھ بین الاقوامی روابط کو مضبوط بنانا ہے۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مغربی ممالک کے ساتھ ہونے والی کسی اعلیٰ سطحی کانفرنس میں کابل حکومت کاکوئی وفد بھی شامل ہوا ہے۔

طالبان کے وفد کی قیادت کابل حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کر رہے ہیں اور اس وفد نے مرکزی کانفرنس سے قبل روس، بھارت اور سعودی عرب جیسے ممالک کے نمائندوں سے ابتدائی بات چیت کی۔ طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق سعودی عرب نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ریاض حکومت کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر غور کر رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے سعودی عرب کا کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا۔

افغان میڈیا کو حاصل ہونے والی اس میٹنگ کے ایجنڈے کی  ایک نقل کے مطابق مرکزی کانفرنس میں اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو اور قطری وفد کے سربراہ نے ابتدائی تقاریر کیں اور اس کے بعد طالبان کے وفد کو خطاب کا موقع دیا گیا۔ اجلاس کے دوسرے دن افغانستان میں نجی شعبے اور انسداد منشیات کی کوششوں کے بارے میں بات چیت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی روابط کا آغاز؟

ذبیح اللہ مجاہد نے اس کانفرنس کو افغانستان اور عالمی برادری کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کا ایک موقع قرار دیا ہے۔

دریں اثنا اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''اقوام متحدہ کے اجلاس کے ساتھ ساتھ بہت سے خصوصی ایلچی طالبان کے نمائندوں کے ساتھ الگ سے بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

طالبان کا وفد روس کے خصوصی نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے
طالبان کا وفد روس کے خصوصی نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئےتصویر: ASSOCIATED PRESS/picture alliance

دوسری جانب طالبان نے ملک میں خواتین کی آزادی اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اسی وجہ سے مغربی ممالک افغانستان کی موجودہ حکومت کو متعدد مرتبہ شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ اگنیس کالمارڈ نے مذاکرات سے قبل ایک بیان میں کہا، ''مذاکرات میں طالبان کی شرکت کو یقینی بنانے اور ان کی شرائط پر عمل کرنے سے طالبان کے صنفی بنیاد پر ادارہ جاتی نظام کو قانونی حیثیت حاصل ہو جانے کا خطرہ ہو گا۔‘‘

افغان طالبان خود کو افغان عوام کا واحد نمائندہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے وہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں خواتین سمیت دیگر افغان گروپوں کی شرکت کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ کے حکام کہنا ہے کہ دوحہ کے تمام مذاکرات کے دوران ان کی توجہ خواتین اور لڑکیوں کے تحفظات، عمومی طور پر انسانی حقوق اور افغانستان کے اندر تمام گروہوں کی ملکی سیاست میں شمولیت کی اہمیت پر مرکوز رہے گی۔

اس کانفرنس کے آغاز سے پہلے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ اقوام متحدہ کا حتمی مقصد ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ہے، جو بین الاقوامی برادری میں شامل ہو اور انسانی حقوق سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کرے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو۔

افغانستان کے بینکنگ ذخائر مغربی ممالک میں منجمد ہیں اور طالبان کے متعدد سینئر رہنما ابھی تک امریکہ کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

تاہم حالیہ کچھ عرصے میں تبدیلی کے اشارے بھی ملے ہیں۔ اقوام متحدہ نے طالبان کے چند مرکزی رہنماؤں پر عائد سفری پابندیاں نرم کی ہیں جبکہ یورپی یونین نے بھی افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان حکومت اور افغانستان کے حوالے سے موجودہ بین الاقوامی موقف میں نرمی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

ا ا / م م (ڈی پی اے، اے ایف پی)