افغان لڑکوں کی ہلاکت پر نیٹو کی معذرت
3 مارچ 2013نیٹو نے ہفتے کو بتایا ہے کہ بین الاقوامی فورسز کے ہاتھوں افغانستان کے ایک جنوبی علاقے میں ایک آپریشن کے دوران دو لڑکے غلط فہمی میں ہلاک ہو گئے تھے۔
افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈُنفورڈ نے اس واقعے کے ردِ عمل میں کہا ہے کہ وہ ہلاک ہونے والے لڑکوں کے خاندان سے ’ذاتی طور پر معذرت خواہ‘ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اتحادی افواج ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔
نیٹو کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ لڑکے جمعرات کو صوبے ارزگان کے ضلعے شاہدِ حساس میں اس وقت ہلاک ہوئے جب اتحادی فوجیوں نے عسکریت پسند سمجھتے ہوئے ان پر فائرنگ کر دی تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہفتے کو ایک مشترکہ افغان۔نیٹو تفتیشی ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا اور وہاں مقامی رہنماؤں سے ملاقات کی۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے افغان پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ فائرنگ کرنے والے فوجی آسٹریلوی تھے۔ ارزگان صوبے کے پولیس ترجمان فرید عائل کا کہنا ہے کہ بچے مویشیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے کہ اس وقت طالبان شدت پسندوں کے ایک حملے کے ردِ عمل میں آسٹریلوی فوجیوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔
واضح رہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی جانب سے شہری ہلاکتیں نیٹو اور کابل حکومت کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دو ہزار 754 افغان شہری ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد 2011ء کے تین ہزار 131 کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔
تاہم گزشتہ برس کی آخری ششماہی میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس سے افغانستان میں تشدد کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ظاہر ہوتا ہے، جس کی وجہ وہاں آئندہ برس کے آخر میں اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ہونے والی 81 فیصد شہری ہلاکتوں اور زخمیوں کے لیے طالبان اور دیگر شدت پسند ذمہ دار ہیں جبکہ آٹھ فیصد کے لیے حکومت نواز فورسز کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ بقیہ شہری ہلاکتوں کے لیے کسی فریق کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا۔
امریکی اور اتحادی فورسز سے جوڑی جانے والی شہری ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں گزشتہ برس 46 فیصد کمی ہوئی۔
ng/aba (AP, dpa)