افغان مہاجرین کی ملک بدری، پاکستان کے لیے سکیورٹی چیلنج؟
16 نومبر 2023اس وقت پاکستانی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کی مہم ایک بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مہاجرین کی ملک بدری کا آغاز اسی مہینے ہوا تھا اور اس کے تحت اب تک پاکستان سے دو لاکھ مہاجرین کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔
ملک بدری کی اس مہم اور اس کے دوران افغان مہاجرین سے بدسلوکی اور ان کو ہراساں کیے جانے کی خبروں کے باعث اس وقت افغان طالبان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان افغان حکمرانوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کو وہ اس قسم کی 'ظالمانہ کارروائیوں' سے باز رہیں۔
اس حوالے سےافغانستان کے موجودہ حکومتی سربراہ ملا محمد حسن آخوند نے ایک بیان میں کہا، "پاکستانی حکمرانوں، موجودہ عبوری حکومت اور فوجی جرنیلوں کو اسلامی اصولوں پر عمل کرنا چاہیے، مستقبل کو ترجیح دینی چاہیے اور افغان مہاجرین سے بدسلوکی اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔"
افغان طالبان اور ٹی ٹی پی
لیکن پاکستان اورافغان طالبان کے درمیان پیچیدہ اور کشیدہ نوعیت کے تعلقات محظ اس قسم کے سفارتی بیانات تک محدود نہیں ہیں۔
سن 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں متعدد عسکریت پسند تنظیموں نے تحریک طالبان پاکستان نامی ایک گروپ تشکیل کیا تھا، جو دراصل افغان طالبان کی ایک شاخ تھی۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نے اپنی تشکیل کہ بعد یہ اعلان کیا تھا کہ چونکہ پاکستانی حکومت نے 2001ء میں شروع ہونے والی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا، اس لیے پاکستانی فوج ایک "مرتد قوت" بن چکی ہے اور اس کے خلاف لڑنا جائز ہے۔
تب سے ٹی ٹی پی پاکستان میں سینکڑوں حملے کر چکی ہے۔
ان میں 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے، جس کے بعد پاکستان حکام اور افواج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ نتیجتاﹰ پاکستان میں مقیم زیادہ تر عسکریت پسند افغانستان منتقل ہوگئے تھے، جہاں سے انہوں نے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ سن 2021ء میں افغان طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
سکیورٹی کے ممکنہ مسائل
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہاں ایک شدید اقتصادی بحران بھی پیدا ہوگیا ہے اور لاکھوں لوگ کو زندہ رہنے کے لیے امداد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
اس تناظر میں پشاور میں مقیم تجزیہ کار ڈاکٹر فیض اللہ جان کا ماننا ہے کہ ایسے وقت میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی افغانستان واپسی سے افغان حکومت کے لیے ان مسائل سے نمٹنا مزید مشکل ہوسکتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے افغانوں میں پاکستان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ ہوگا اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر افغان حکومت پاکستانی حکومت کے ساتھ سخت رویہ بھی اختیار کرنے پر بھی مجبور ہو سکتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر نورین نصیر کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ان حالات میں افغان حکومت پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے۔
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان طالبان پر پہلے ہی ٹی ٹی پی کی خفیہ طور پر حمایت کرنے کا الزام ہے، اور مہاجرین کی ملک بدری اور اس کے باعث پاکستانی حکام کے خلاف پائے جانے والے غم و غصے کی وجہ سے افغانی حکام اپنے ان نظریاتی اتحادیوں کے ساتھ اب کھلے عام معاہدہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کہے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔
ملکی بدری کی مہم کے بارے میں اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار احسان اللہ ٹیپو محسود نے کہا کہ اگر افغان طالبان کی نظر سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ان پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر زور ڈالنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ خدشہ بھی ہے کہ افغان طالبان کے ماتحت سپاہی ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کیے جانے والے حملوں میں معاونت کریں، جس سے پاکستان سے کے لیے سکیورٹی کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔
اور چونکہ کچھ افغان بلوچستان کے چند علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں، اس وقت کچھ حلقوں میں یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ پاکستان میں کشیدگی اس صوبے میں شورش میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے ایک ریٹائرڈ جرنیل غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ بھارت بھی موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "کسی بھی تنازعے کی صورت میں پاکستان کو مشرقی محاذ پر بھارت اور مغربی محاذ پر ایک اور مخالف حکومت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"
م ا/ ر ب(ایس خان)