1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغان خواتین اب صحت عامہ کی تعلیم سے بھی محروم؟

4 دسمبر 2024

افغانستان میں نرسنگ اور مڈوائفری کورسز کی پیشکش کرنے والے اداروں کے سینئر ملازمین نے عندیہ دیا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے حکم پر جلد ہی خواتین کو صحت کے شعبے میں تعلیم و تربیت سے محروم کر دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4nj1O
2022ء کابل: اندرا گاندھی ہسپتال کی نرسیں اپنی تنخواہوں کے انتظار میں
کابل میں قائم اندرا گاندھی ہسپتال کی نرسیں اپنی تنخواہوں کے انتظار میںتصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

 افغانستان میں صحت کے حکام نے حال ہی میں دارالحکومت کابل میں تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز سے ملاقات کی۔ اس موقع پر تعلیمی  اداروں کے ناظمین کو مطلع کیا گیا کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے حکم پر جلد ہی افغان خواتین کو ہیلتھ اسٹڈیز یا صحت سے متعلق تعلیم و تربیت حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔ یہ اطلاع صحت عامہ کی وزارت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی تک پہنچاتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں کوئی باضابطہ سرکاری خط جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز کو ایک میٹنگ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں اب ان کے اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔

افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ

وزارت صحت کے اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ''انہیں کوئی تفصیلات اور جواز فراہم نہیں کی گئیں تاہم سپریم لیڈر کے حکم کے بارے میں بتایا گیا اور اس پر عمل درآمد کرنے کو کہا گیا۔‘‘  اس میٹنگ میں شرکت کرنے والے ایک تعلیمی ادارے کے منتظم نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مختلف تعلیمی مراکز کے درجنوں منتظمین اس اجلاس میں موجود تھے۔

افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم صرف پرائمری اسکول تک

 ایک اور تعلیمی مرکز کے ایک سینئر ملازم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے ادارے کے سربراہ نے منگل کو اس پریشان کن فیصلے کے بارے میں صحت کے حکام کے ساتھ ایک علیحدہ میٹنگ  کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے اس حکم نامے کے سامنے آنے کے بعد مذکورہ  اداروں کو فائنل امتحانات کے لیے دس دن کا وقت دیا گیا تھا۔کچھ منتظمین نے  وزارت سے وضاحت کے لیے درخواست کی، جبکہ دیگر نے تحریری حکم کی عدم موجودگی میں معمول کے مطابق اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔افغانستان: لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے محروم ہوئے ایک ہزار دن گزر گئے

 

کابل: صحت کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند طلبا
کابل میں ہیلتھ اسٹیڈیز کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند طلباتصویر: Wakil KOHSAR/AFP

2021 ء کے بعد سے افغانستان میں خواتین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

دوہز ار اکیس میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد سے ہی ملک میں لڑکیوں اور خواتین کی زندگیوں کو محدود سے محدود تر کرنے اور ان کے سماجی، تعلیمی اور معاشرتی بنیادی حقوق کا دائرہ تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ نے طالبان کی طرف سے لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے آگے کی تعلیم سے محروم رکھنے کے فیصلے کو ''صنفی امتیاز‘‘ پر مبنی امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔

افغان خواتین اور صحت کے ادارے

طالبان حکومت کی طرف سے افغانستان کی لڑکیوں پر سیکنڈری اسکول کے بعد کی تعلیم پر پابندی لگائے جانے  کے بعد سے طالبات نے صحت کے تعلیمی اداروں کی طرف رخ کرنا شروع کیا تھا۔ صحت کے ادارے ان گنے چنے شعبوں میں سے ایک ہیں، جوافغان خواتین کے لیے اب بھی کھلے تھے۔ صحت کے مراکز میں ہی افغان طالبات کی اکثریت زیر تعلیم ہے۔

طالبان نے درجنوں خواتین اسٹوڈنٹس کو دبئی جانے سے روک دیا

مذہبی انتہا پسندی کے شکار افغان معاشرے میں صحت کے قریب 10 سرکاری اور 150 سے زائد نجی ادارے ہیں، جو 18 مظامین میں دو سال پر محیط ڈپلوموں کی پیش کش کرتے ہیں ان میں مڈوائفری سے لے کر اینستھیزیا، فارمیسی اور دندان سازی تک کی تعلیم و تربیت شامل ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق ان تعلیمی مراکز میں کل 35,000 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ کابل کے ایک پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ میں مڈوائفری کی ٹیچر نے اپنے فرضی نام عائشہ بتاتے ہوئے ایک بیان میں کہا،'' ہم اپنی صرف 10 فیصد طلباء کے ساتھ کیا کریں؟‘‘  عائشہ نے بتایا کہ انہیں اپنی انتظامیہ کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا ہے،  جس میں بغیر کسی وضاحت کے کہا گیا کہ اگلے نوٹس تک وہ کام پر نہ آئیں۔‘‘

افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم معروف کارکن گرفتار

 

کابل کا ’امید انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز‘
کابل کے ’امید انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز‘ کے باہر طلبا کا گروپتصویر: Wakil KOHSAR/AFP

 28 سالہ عائشہ نے اس بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،''یہ ہمارے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ نفسیاتی طور پر، ہم لرز کر رہ گئے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''یہ ان لڑکیوں اور خواتین کے لیے امید کا واحد ذریعہ تھا، جن پر یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی پابندی لگائی گئی تھی۔‘‘

طالبان سپریم لیڈر کے اس فیصلے پر رد عمل

دریں اثناء  کابل میں برطانوی سفارت خانے کے ناظم الامور نے کہا ہے کہ وہ ان رپورٹس سے ''سخت فکر مند‘‘ ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ''یہ خواتین کے تعلیم کے حق کی ایک اور توہین ہے اور یہ فیصلہ افغان خواتین اور بچوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو مزید محدود کرنے کا سبب بنے گا۔‘‘

دو اسکولوں میں ایک سو طلبہ کو زہر دیا گیا، افغان حکام

افغانستان کی  وزارت صحت کے ذرائع نے کہا کہ  اس پابندی سے ''پہلے سے تباہ حال شعبہ صحت کو مزید نقصان پہنچے گا۔‘‘ اس زرائع کا مزید کہنا تھا ، ''ہمارے پاس پہلے ہی پروفیشنل میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی ہے اور اس پابندی کے نتیجے میں اس میں مزید کمی آئے گی۔‘‘

افغانستان میں خانہ بدوش بچوں کے لیے موبائل اسکول

ک م/ ش ر (اے ایف پی)