افغانستان، عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کا احتجاجی سلسلہ دوسرے روز بھی جاری
22 جون 2014خبررساں ادارے روئٹزر نے کابل سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کے دن بھی عبداللہ عبداللہ کے حامیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے۔ سابق وزیر خارجہ عبداللہ نے اقوام متحدہ اور کابل حکومت کے ایسے مطالبات مسترد کر دیے ہیں کہ وہ ووٹوں کی گنتی کے عمل میں شریک ہوں جائیں۔ عبداللہ نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر جاری ووٹوں کی گنتی کے عمل سے اپنے مبصرین کو واپس بلا لیا تھا۔
تاجک اور پشتون پس منظر سے تعلق رکھنے والے عبداللہ عبداللہ طالبان مخالف ’شمالی اتحاد‘ کے ایک رہنما رہ چکے ہیں۔ چودہ جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ان کا مقابلہ پشتون اکثریتی قبیلے سے تعلق رکھنے والے رہنما اشرف غنی سے ہوا تھا۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور صدر حامد کرزئی ان انتخابات میں انہیں ہرانے کے لیے منظم کوششیں کر رہے ہیں۔ اس الزام کے ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ’آزاد الیکشن کمیشن‘ IEC کے سربراہ ضیا الحق امرخیل کو برطرف کیا جائے اور مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کی جائیں۔
ان احتجاجی مظاہروں کے دوسرے دن یعنی اتوار کو عبداللہ عبداللہ کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد نے کابل میں صدر دفتر کے باہر مظاہرہ کیا جبکہ سینکڑوں افراد نے کابل کی مختلف شاہراہوں پر جمع ہو کر ٹریفک بلاک کر دی، جس سے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو جانے والی ٹریفک بھی متاثر ہوئی۔
اسی طرح ہرات میں بھی سینکڑوں افراد نے عبداللہ عبداللہ کے حق میں ریلیاں نکالیں اور الیکشن کمیشن کے سرابراہ کے خلاف نعرہ بازی کی۔ اس موقع پر ساٹھ مشتعل مظاہرین نے گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی طور پر اپنے ’ووٹنگ کارڈز‘ نذر آتش کر دیے۔ ادھر قندوز میں الیکشن آفیسر عامر احمدزئی نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ عبداللہ عبداللہ کے مسلح حامیوں نے طاقت کے زور پر الیکشن آفس بند کرا دیا۔
افغانستان میں یہ سیاسی بحران ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج تیرہ سالہ جنگ کے بعد رواں برس کے اختتام تک افغانستان سے واپس جا رہی ہیں۔ ناقدین کے بقول اس مخصوص صورتحال میں افغانستان میں ایک مضبوط سیاسی قیادت کی ضرورت ہے ورنہ طالبان اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔