افغانستان عراق نہیں، افغان صدارتی امیدوار
15 جولائی 2014پیر کے روز خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے اس معاہدے کی مکمل حمایت کرتے ہیں، جس میں صدارتی انتخابات میں ڈالے گئے تمام 80 لاکھ ووٹوں کی جانچ پڑتال کا کہا گیا تھا۔ غنی اور عبداللہ عبداللہ نے اس جانچ پڑتال کے بعد سامنے آنے والے نتائج کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس سے قبل صدارتی انتخابات کے عبوری نتائج میں اشرف غنی کی برتری کا اعلان سامنے آیا تھا، جسے ان کے مد مقابل عبداللہ عبداللہ نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا۔ عبداللہ کے کیمپ سے یہ آوازیں بھی سامنے آئیں تھیں کہ ایسی صورت میں عبداللہ ملک میں ایک متبادل حکومت کے قیام کا اعلان کر سکتے۔ اس سیاسی کشیدگی کی وجہ سے افغانستان کے مستقبل اور وہاں کسی ممکنہ خانہ جنگی کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔
سابق وزیرخزانہ اشرف غنی نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ وہ اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ ملکی یک جہتی اور اتحاد کے خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قانون کی بالادستی اور انتخابات کی شفافیت کی اہمیت سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کا تقابل عراق سے ہرگز نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ وہاں مختلف مسالک اور نسلوں کے افراد ایک سیاسی معاہدے پر متفق ہونے میں ناکام ہیں، جس کے ذریعے وزیراعظم نوری المالکی کو تبدیل کیا جا سکے۔ ’’میں مالکی نہیں ہوں اور افغانستان عراق نہیں ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس خصوصی انٹرویو کے دوران یہ واحد موقع تھا جب اشرف غنی نے ایک طرح سے یہ عندیہ دیا کہ وہ ووٹوں کی جانچ پڑتال کے بعد ملک کے نئے صدر بن جائیں گے۔ تاہم تمام انٹرویو کے دوران انہوں نے ووٹوں کی جانچ پڑتال کے عمل کی اہمیت اور حیثیت پر یقین کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ عبداللہ عبداللہ منگل کے روز ان سے ان کے گھر میں ملاقات کے لیے آ رہے ہیں جس میں وہ ملک کے سیاسی مستقل اور آئندہ حکومت میں دونوں امیدواروں اور افغانستان کی تمام برادریوں کی شرکت کے موضوع پر بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں وہ عبداللہ عبداللہ سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے کی توقع بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے دوبارہ ایک تاریک دور میں چلے جانے کے خوف نے دونوں سیاست دانوں کو اس معاہدے پر مجبور کیا۔