افغانستان میں نئی حکمت عملی، امریکی وزیر دفاع کابل میں
12 جولائی 2016امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کے اس دورے کا مقصد افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے حکمت عملی پر مذاکرات کرنا بتایا گیا ہے۔ کارٹر بارہ جولائی بروز منگل کابل کی مضافاتی بگرام ایئر بیس پر انتہائی سکیورٹی کے حصار میں اترے اور آج ہی وہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے دارالحکومت کابل میں ملاقات کریں گے۔
امریکی وزیر دفاع ایک ایسے موقع پر افغانستان پہنچے ہیں، جب اس ملک میں طالبان کی کارروائیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں اور اس شورش زدہ ملک کا ایک وسیع علاقہ ان کے زیر کنٹرول آ چکا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مغربی ممالک سن دو ہزار سترہ کے اختتام تک اپنے فوجی وہاں ہی رکھے گا۔
افغانستان میں ابھی تک چالیس ممالک کے فوجی موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر تعداد امریکیوں کی ہے۔ سرکاری طور پر ان فوجیوں کا مقصد افغان فورسز کو تربیت فراہم کرنا ہے، جو ملکی سلامتی کی ذمہ دار ہے۔
دوسری جانب طالبان گزشتہ پندرہ برسوں سے غیرملکی اور مقامی افواج کے خلاف لڑتے آ رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ یہ اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گے، جب تک غیر ملکی افواج مکمل طور پر افغانستان سے نکل نہیں جاتیں۔
آٹھ برس پہلے اقتدار میں آنے والے امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان اور عراق سے اپنے تمام تر فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا تھا لیکن ان ملکوں کی سکیورٹی کی صورتحال کے باعث وہ ابھی تک ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے منصوبے میں رد و بدل کا اعلان کیا تھا۔ قبل ازیں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ رواں برس کے اختتام تک وہاں موجود نو ہزار آٹھ سو فوجیوں کی تعداد کم کرتے ہوئے ساڑھے پانچ ہزار تک کر دی جائے گی لیکن اب انہوں نے کہا ہے کہ آٹھ ہزار چار سو امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔
افغانستان میں اس وقت نیٹو کے تقریباﹰ تیرہ ہزار فوجی موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر تعداد امریکیوں کی ہے۔ نیٹو نے یہ اعلان کیا تھا کہ سن دو ہزار سترہ تک تقریباﹰ بارہ ہزار فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے لیکن اس کے بدلے میں نیٹو نے افغان سکیورٹی فورسز میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی صدر نے ان قوانین میں بھی آسانی کی ہے، جن کے تحت امریکی فوجی آسانی سے طالبان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔کابل آنے سے پہلے امریکی وزیر دفاع نے بغداد کا ایک مختصر دورہ کیا تھا، جہاں سینکڑوں امریکی فوجی داعش کے خلاف مقامی فورسز کو مدد فراہم کررہے ہیں۔