افغانستان کو طویل المدتی فوجی مدد کی ضرورت ہے، پینٹاگون
31 جولائی 2013واشنگٹن سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دسمبر 2014ء میں افغانستان میں امریکی جنگی مشن کے خاتمے کے بعد بھی لمبے عرصے تک کابل کو اس بات کی ضرورت رہے گی کہ اسے طالبان کی مسلح بغاوت کے خلاف عسکری مدد ملتی رہے۔
امریکی حکام کی طرف سے ابھی تک یہ کہا جا رہا ہے کہ کافی زیادہ امکان یہ ہے کہ افغانستان میں اس وقت موجود امریکی دستوں کی تعداد کم کر کے قریب نو ہزار تک فوجیوں کو تربیتی مقاصد کے لیے آئندہ بھی ہندوکش کی اس ریاست میں تعینات رکھا جائے۔ دوسری طرف وائٹ ہاؤس نے ابھی تک اس صورت حال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا کہ اگلے سال کے اختتام پر افغانستان میں امریکی فوجی دستے سرے سے موجود ہی نہ رہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پینٹاگون نے امریکی کانگریس کو افغانستان میں جنگ کی صورت حال سے متعلق اپنی تازہ ترین ششماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کی فوج مضبوط ہوتی جا رہی ہے تاہم اسے امریکا اور نیٹو کے جنگی مشنوں کے خاتمے کے بعد بھی کہیں زیادہ تربیتی سہولیات، مشاورت اور غیر ملکی مالی مدد کی ضرورت ہو گی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اوباما انتظامیہ اگرچہ یہ وعدہ کر چکی ہے کہ امریکا طویل المدتی بنیادوں پر افغانستان اور افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا تاہم صدر اوباما افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ اپنے اشتراک عمل کے سلسلے میں کافی بد دل بھی ہو چکے ہیں۔
اس سلسلے میں پینٹاگون کے افغانستان سے متعلق پالیسی کے ذمہ دار اعلیٰ ترین اہلکار پیٹر لیوائے نے منگل کی شام واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکی محکمہء دفاع نے 2014ء کے بعد کے امکانی حالات کے حوالے سے کئی طرح کی جملہ تفصیلات کا مکمل جائزہ لیا ہے۔
ان امکانات میں یہ بات بھی مد نظر رکھی گئی ہے کہ کابل کو آئندہ اضافی فوجی تربیتی سہولیات اور مشاورت کی ضرورت ہو گی۔ اس کے علاوہ پینٹاگون زمینی حقائق کے پیش نظر ان عسکری تقاضوں کو بھی مد نظر رکھے ہوئے ہے کہ افغانستان میں طویل المدتی بنیادوں پر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے امریکی دستوں کی ضرورت باقی رہے گی۔ پیٹر لیوائے کے بقول ان میں سے کوئی بھی صورت ایسی نظر نہیں آئی جو افغانستان کے حوالے سے ’زیرو آپشن‘ کی متقاضی ہو۔
اس تناظر میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ امریکا ابھی تک افغانستان کے ساتھ کسی ایسے سکیورٹی معاہدے کے لیے مذاکرات کو کامیابی کے ساتھ ان کی تکمیل تک نہیں پہنچا سکا، جس کے تحت 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی کے لیے ٹھوس قانونی بنیادیں فراہم کی جا سکیں۔ اس سلسلے میں دوطرفہ مذاکرات گزشتہ برس شروع ہوئے تھے لیکن ان میں اب تک کوئی واضح پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
2010ء میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد اپنی سب سے اونچی سطح تک پہنچ گئی تھی، جو ایک لاکھ بنتی تھی۔ اس وقت وہاں امریکی دستوں کی تعداد 60 ہزار کے قریب ہے، جس میں اگلے برس فروری تک مزید کمی کر دی جائے گی اور تب یہ تعداد 34 ہزار رہ جائے گی۔