افغانستان کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ: امریکا، نیٹو پُر امید
23 اکتوبر 2013برسلز میں نیٹو وزرائے دفاع کے اجلاس کے موقع پر یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ اس سکیورٹی معاہدے کو افغانستان کے مقتدر حلقوں اور پارلیمان کی مکمل حمایت حاصل ہو جائے گی۔
دوسری طرف افغان صدر کے ترجمان ایمل فیضی نےا توار کے روز خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ دوطرفہ دفاع کے اس معاہدے کے بہت سے امور پر ابھی کابل اور واشنگٹن کے درمیان اتفاق رائے ہونا باقی ہے۔
اس بیان کے بعد ان خدشات نے بھی جنم لیا ہے کہ افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلاء کی حتمی تاریخ آنے پر تمام امریکی دستے افغانستان سے چلیں جائیں گے۔ اس وقت افغانستان کے بیشتر حصوں میں سکیورٹی کی زمہ داریاں افغان دستوں کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ نیٹو سیکرٹری آندرس فوگ راسموسن کا اس حوالے سے کہنا ہے:’’اب قیادت افغان دستوں کے پاس ہے، جو ہمت اور خود اعتمادی کے ساتھ اپنی زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘‘
تاہم امریکی سکیورٹی حکام کا کہنا کہ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل اور ان کے افغان ہم منصب بسم اللہ خان محمدی کے درمیان برسلز میں ہونے والی ملاقات حوصلہ افزا رہی ہے۔ یہ ملاقات نیٹو وزرائے دفاع کے مرکزی اجلاس کے پہلو میں منعقد ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد امریکی حکام کی جانب سے یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے حوالے سے جلد اتفاقِ رائے ہو جائے گا۔
اس دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے حوالے راسموسن کہتے ہیں: ’’میں اس تجویز کا خیر مقدم کرتا ہوں کیونکہ یہ اس امر کی ایک اور مثال ہے کہ کس طرح اتحادی اور ہمارے پارٹنر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح قریبی تعاون کا مظاہر ہ کر سکتے ہیں کہ بہت ضروری فوجی صلاحیتوں کے حصول اور ان میں اضافے کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا اس ملاقات میں محمدی نے اس معاہدے کے حوالے سے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’محمدی نے پُر اعتماد لہجے میں کہا ہے کہ اس حوالے سے جلد اتفاقِ رائے طے پا جائے گا اور اسے افغانوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی۔‘‘
برسلز میں نیٹو وزرائے دفاع کا اجلاس جاری ہے۔ اس موقع پر راسموسن نے نیٹو افواج کے مستقبل کے حوالے سے کہا: ’’مستقبل کا نیٹو اتحاد ایسا ہوگا، جو ہر طرح کے حالات کے لیے تیار رہے گا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا پڑے گا کہ ہماری فوجیں آپس میں بہتر طور پر رابطے میں رہیں اور زیادہ احسن انداز میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔‘‘
واشنگٹن اور کابل کے مابین اس دفاعی معاہدے کے حوالے سے مذاکرات وقفے وقفے سے قریب ایک سال سے جاری ہیں۔ مذاکرات کے حوالے سے افغان وزیر دفاع کا فوری طور پر مؤقف جاننے کے لیے محمدی یا ان کوئی ترجمان دستیاب نہیں تھا۔
افغانستان اور امریکا کے درمیان اس معاہدے پر اتفاقِ رائے کے بعد یہ طے پا جائے گا کہ افغانستان میں سن 2014 کے بعد رہ جانے والے امریکی فوجیوں کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ یاد رہے کہ اس معاہدہ کے طے پا جانے کے بعد امریکی فوجیوں کو افغانستان میں مزید قیام کی اجازت حاصل ہو جائے گی۔
ایک امریکی فوجی اہلکار نے الگ طور پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کے امکانات ’بہت معدوم‘ ہیں کہ سن 2014 کے بعد امریکی فوج کا افغانستان سے مکمل انخلاء ہو۔
انہوں نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے حالیہ دورہء افغانستان کے بعد اس حوالے سے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ نیٹو سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے بھی برسلز سے جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے:’’ میں پر امید ہوں کہ جلد معاہدے کے حوالے سے اتفاقِ رائے ہوجائے گا۔‘‘