’افغانستان کے لیے سب سے سنگين خطرہ طالبان نہیں بلکہ بدعنوانی ہے‘
1 مئی 2014افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے سابق کمانڈر جنرل جان ایلن نے بدھ کے دن سینیٹ کی ایک ذیلی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا، ’’ایک طویل عرصے تک ہم نے اپنی توجہ صرف طالبان پر مرکوز رکھی، جنہيں ہم اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کا تقابلی جائزہ اس ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی سے کیا جائے تو یہ جنگجو صرف ایک غصے کا باعث قرار دیے جا سکتے ہیں۔
جان ایلن کے بقول افغانستان کی حقیقی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ایمانداری، ایک مؤثر عدلیہ اور قانون کا بول بالا کرنے کے لیے سچا عزم درکار ہے۔ اس سابق امریکی اعلیٰ فوجی اہلکار نے سینیٹرز سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا، ’’آپ کی اولین ترجیح اس ملک کے اداروں کو بدعنوانی سے پاک بنانا ہونی چاہیے۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے بدعنوانی کو جمہوریت کے لیے دیمک کے مانند قرار دیا۔
افغانستان میں نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد وہاں غیر ملکی افواج کی تعیناتی پر اپنا مؤقف دہراتے ہوئے جنزل ایلن نے کہا کہ رواں برس دسمبر کے بعد بھی افغانستان میں 13 ہزار 600 امریکی جبکہ چھ ہزار بین الاقوامی فوجی تعینات کیے جانا چاہییں۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان فوجیوں کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور تکنیکی امور کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ بہتر بنانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف امریکی محمکہء دفاع نے بھی کانگریس کو ارسال کردہ اپنی ایک رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ رواں برس کے اختتام کے بعد بھی افغانستان ميں غیر ملکی فوجی تعینات رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ طالبان کی طرف سے لاحق خطرات کے تناظر میں مقامی فورسز کی مدد کی جا سکے۔
جنرل جان ایلن نے افغانستان کے آئندہ صدر پر بھی زور دیا کہ وہ کابل اور واشنگٹن کے مابین باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ یہ امر اہم ہے کہ موجودہ صدر حامد کرزئی کی طرف سے باہمی سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط نہ کرنے کے باعث ان دونوں ممالک میں کشیدگی کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔
بدھ کے دن افغانستان کے انسپکٹر جنرل برائے تعمیر نو کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں جنرل جان ایلن کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی کے باعث جہاں محصولات وصول کرنے میں بیش بہا مشکلات ہیں، وہیں اقتصادی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی باعث افغانستان میں احتسابی عمل کو فروغ دینے میں بھی مشکلات لاحق ہیں۔