افغانوں کی ملک بدری پر جرمن پالیمان میں بحث
16 دسمبر 2016جرمن حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان کے کچھ حصے محفوظ ہیں اور ایسے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افغان باشندوں کو سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے پر واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ جرمنی اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان اس سلسلے میں رواں برس اکتوبر میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔
جرمن پارلیمان میں اس سلسلے میں جمعے کے روز یہ بحث ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے، جب رواں ہفتے 34 افغان باشندوں کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے فرینکفرٹ سے کابل پہنچایا گیا۔ اس واقعے کے بعد جرمنی میں شدید بحث جاری ہے۔
ایک اخباری انٹرویو میں گرین پارٹی کے رہنما سیم اوزڈیمِر نے کہا، ’یہ ان تمام افراد کے منہ پر ایک طمانچہ تھا، جنہیں جرمنی میں فی الحال رہائشی پرمٹ نہیں ملا ہے۔ ایسے افراد اب مزید خوف کا شکار ہو گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے ان بیانات پر بھی تنقید کی، جن میں کہا گیا تھا کہ واپس بھیجے جانے والے افغان باشندوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق نہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’’واپس بھیجے جانے والوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو سکتی ہیں۔ پارلیمان افغانستان میں فوج تعینات رکھنے کے حق میں ہے۔ حکومتی عہدیدار بھی افغانستان میں بلٹ پروف جیکٹس کے بغیر نہیں جاتے اور طالبان بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان ایک محفوظ ملک ہے؟‘‘
اوزڈیمِر ان جرمن سیاست دانوں میں شامل ہیں، جو سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزار افغان باشندوں کی ملک بدری کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت کی رہنما کاٹیا کِپِنگ نے بھی اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا، ’یہ حکومتی فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔‘‘
اس حکومتی اقدام پر حکومتی کمشنر برائے انسانی حقوق بیربل کوفلر نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کے روز ایک اخبار سے بات چیت میں کوفلر نے کہا، ’’مجھے اب تک ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی، جس سے یہ معلوم ہو کہ افغانستان کے کچھ حصے محفوظ ہیں۔‘‘
دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ یہ ڈی پورٹیشن پرامن طریقے سے ہوئی۔ وزیرداخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افراد میں سے کچھ ’جرائم پیشہ‘ تھے۔