1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

اقتصادیات، جرمن انتخابات میں سب سے بڑا مدعا

17 دسمبر 2024

جرمنی میں اگلے برس فروری کی 23 تاریخ کو عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے جب کہ تمام ہی جماعتوں کی انتخابی مہم میں اقتصادی بحالی بنیادی نکتہ ہے۔

https://p.dw.com/p/4oFdW
G20-Gipfel | Bundeskanzler Scholz spricht mit Journalisten am Rande des Gipfels
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

جرمنی کی تمام اہم سیاسی جماعتیں آج منگل کو اپنے انتخابی پروگرام پیش کر رہی ہیں۔ اس سے ایک روز قبل چانسلر اولاف شولس پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے، جس کی وجہ سے 23 فروری کو قبل از وقت انتخابات کی راہ ہم وار ہو گئی۔

یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی قوت جرمنی میں اولاف شولس کی اتحادی حکومت اس وقت ختم ہو گئی، جب اقتصادی امور پر اس تین جماعتی حکومتی اتحاد کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ اس وقت جرمن معیشت ہی کا موضوع جرمن ووٹروں کے درمیان اہم ترین قرار دیا جا رہا ہے۔

جرمن معیشت دیگر اہم اتحادی ممالک کے مقابلے میں مسلسل دوسرے برس سکڑنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ معیشت کی بحالی کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر تجاویز پیش کر رہی ہیں، جو ان کی انتخابی مہم کا حصہ بھی ہوں گی۔

ایس پی ڈی اور سی ڈی یو کے چانسلر کے عہدے کے مشترکہ امیدوار میرس ہیں
سی ڈی یو کے رہنما میرس چانسلر کے عہدے کے اہم رہنما ہیںتصویر: Frederic Kern/Geisler-Fotopress/picture alliance

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی

چانسلر شولس کی سینٹر لیفٹ سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نجی سرمایہ کاری کی ترغیب دینے اور انفراسٹرکچر کی جدید کاری کے لیے بجٹ سے بڑھ کر 100 ارب یوروکی سرمایہ کاری کی تجویز دیتی ہے۔

یہ جماعت ''میڈ  ان جرمنی‘‘ پریمیم بھی متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ داخلی سرمایہ کاری کو بڑھایا جا سکے۔ اس منصوبے میں کاروباری سرمایہ کاری پر 10 فیصد  تک کے براہ راست ٹیکس کی چھوٹ شامل ہے۔

جرمن ساختہ ای گاڑیوں کی خریداری کو فروغ دینے کے لیے، ایس پی ڈی خریداروں کو عارضی ٹیکس میں کمی کی پیش کش کی تجویز بھی دے رہی ہے۔

 

کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور کرسچیئن سوشلسٹ یونین

قدامت پسند اپوزیشن جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور باویریا صوبے میں اس کی سسٹر جماعت کرسچین سوشلسٹ یونین (سی ایس یو)، کمپنیوں اور شہریوں کے لیے وسیع مالی امداد کی تجویز دیتے ہیں۔ ان کی تجویز ہے کہ آمدن اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کی جائے اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کٹوتی کی جائے۔ تاہم یہ جماعتیں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ مالی طور پر کیسے ممکن ہوگا؟ اس تجویز پر دیگر جماعتیں شدید تنقید کر رہی ہیں۔

 قدامت پسند رہنما فریڈیش میرس، جو رائے شماری کے مطابق جرمنی کے اگلے چانسلر بن سکتے ہیں،  حکومتی قرض میں کمی کے لیے کم سخت اصلاح کے حامی ہیں۔

گرین پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کے امیدوار روبرٹ ہابیک
گرین پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کے امیدوار روبرٹ ہابیکتصویر: Daniel Roland/AFP/Getty Images

گرین پارٹی

وزیر اقتصادیات رابرٹ ہیبیک، جو گرین پارٹی کے چانسلر کے عہدے کے امیدوار ہیں، حکومتی قرض کی روک تھام کے لیے اصلاح کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے عوامی اخراجات میں اضافہ کیا جا سکے۔

گرینز کا ارادہ ہے کہ وہ مالیاتی منڈیوں میں سرمایہ کاری کریں تاکہ قانونی پنشن اسکیم کے لیے مزید فنڈز پیدا کیے جا سکیں، جس کے تحت وہ ایک ''شہری فنڈ‘‘ بنائیں گے۔

اس فنڈ کو پائیداری کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے اور اسے پیرس موسمیاتی معاہدے کے 1.5 ڈگری سیلسیس کے ہدف کے مطابق ترتیب دیا جائے گا۔

گرینز کے انتخابی پروگرام میں ''چھوٹے اور درمیانے درجے کی آمدنی‘‘ والے افراد کے لیے برقی گاڑیوں کی خریداری پر ٹیکس کی چھوٹ شامل ہے۔

اس جماعت کے انتخابی پروگرام میں 2025 تک کم از کم اجرت کو 15 یورو فی گھنٹہ بڑھانے کی تجویز بھی شامل ہے، جو اس وقت 12.41 یورو ہے۔

جرمن حکومتی اتحاد ٹوٹنے کے بعد اب آگے کيا ہو گا؟

 

ایف ڈی پی

نیو لبرل فری ڈیموکریٹس خود کو قرض کی روک تھام کے سب سے بڑے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ شولس حکومت کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرخزانہ کرسٹیان لِنڈنر کا حکومتی قرضوں کی حد معطل کرنے سے انکار تھا۔

اس جماعت نے اب تک اپنا انتخابی پروگرام تو پیش نہیں کیا، لیکن ایک 18 صفحات پر مشتمل پالیسی دستاویز، جو نومبر کے شروع میں اتحادیوں کے درمیان تناؤ کا باعث بنی، پارٹی کی اقتصادی لائنوں کا ایک اندازہ دیتی ہے۔

ایف ڈی پی معیشت کو بڑھانے کے لیے ٹیکس میں کمی کی حمایت کرتی ہے، اور دستاویز میں ''سولیڈیرٹی‘‘ سرچارج کے خاتمے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ ''یک جہتی سرچارج‘‘ مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد اضافی طور پر عائد کیا گیا تھا، جس کا مقصد غریب مشرقی ریاستوں کی مدد تھا۔

یہ پارٹی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق زیادہ پرجوش اہداف پر بھی تنقید کرتی ہے اور نئے ضوابط کو فوری طور پر روکنے کی تجویز دیتی ہے۔

اے ایف ڈی

انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی)، جو حالیہ رائے شماری کے مطابق قدامت پسندوں کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے بڑی جماعت ہے، جرمنی کو برطانیہ کی طرح یورپی یونین سے نکالنے یعنی ''ڈیگزٹ‘‘ کی تجویز دیتی ہے۔

پارٹی چاہتی ہے کہ ملک یورو کو ترک کرے اور ڈوئچے مارک کو دوبارہ متعارف کرائے۔ اے ایف ڈی قرض کی روک تھام کی حمایت کرتی ہے اور موسمیاتی تحفظ پر اخراجات اور بین الاقوامی اداروں میں شراکت داری میں کمی کی تجویز دیتی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ جرمنی کی تمام اہم سیاسی جماعتیں مستقبل کی کسی بھی حکومت میں اے ایف ڈی کو شامل کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ اے ایف ڈی نے پہلے ہی اپنے انتخابی پروگرام کا مسودہ پیش کیا ہے۔

ع ت/ ک م(روئٹرز)