1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

المالکی کا عراقی صدر کے خلاف مقدمے کا اعلان

مقبول ملک11 اگست 2014

عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر فواد معصوم کے خلاف ریاستی آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں آج پیر کے روز ایک مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CsHE
نوری المالکیتصویر: Reuters

شیعہ سیاستدان نوری المالکی نے یہ اعلان اتوار اور پیر کی درمیانی رات نصف شب کے بعد سرکاری ٹیلی وژن پر عراقی عوام سے اپنے ایک اچانک خطاب میں کیا۔ مالکی کے بقول سینئر کرد رہنما اور نو منتخب ملکی صدر فواد معصوم انہیں نیا وزیر اعظم نامزد کرنے میں ناکامی کے ساتھ دو مرتبہ ملکی آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مالکی کے مطابق فواد معصوم کے خلاف مبینہ طور پر آئین کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے وفاقی عدالت میں مقدمہ آج پیر کے روز دائر کر دیا جائے گا۔

بغداد سے موصولہ خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق عراق میں خراب تر سکیورٹی صورت حال، گزشتہ عام انتخابات کے مہینوں بعد بھی نئی ملکی حکومت قائم نہ ہونے اور سنی عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی پریشان کن حد تک زیادہ پیش قدمی کی وجہ سے یہ مطالبات گزشتہ کچھ عرصے سے کافی زور پکڑ چکے ہیں کہ نوری المالکی کو سربراہ حکومت کے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

Fuad Massum Präsident Irak 24.07.2014
عراقی صدر فواد معصومتصویر: Ali Al-Saadi/AFP/Getty Images

اب ان کی طرف سے صدر معصوم کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے اعلان نے ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے، حالانکہ مبصرین کے مطابق اس وقت عراقی حکومت اور ریاستی ڈھانچے کی ساری توجہ اس بات پر ہونی چاہیے تھی کہ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کا قلع قمع کیا جائے۔

مالکی دو مرتبہ ملکی وزی‍ر اعظم منتخب ہو چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں تیسری مدت کے لیے بھی وزیر اعظم کے عہدے پر منتخب کیا جائے۔ لیکن خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق ان کے اتوار کی رات ٹیلی وژن پر خطاب اور اس میں کیے گئے اعلان سے ملک میں ایک نیا داخلی محاذ کھل گیا ہے۔

اسی دوران مالکی حکومت نے عراقی دارالحکومت بغداد میں بہت بڑی تعداد میں اضافی سکیورٹی فورسز بھی تعنیات کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ایسی شیعہ ملیشیا قوتیں بھی تعینات کی گئی ہیں جو المالکی کی حامی ہیں۔

دوسری طرف مالکی کے خطاب کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کی طرف سے کہا گیا کہ واشنگٹن حکومت عراق میں آئین کی ضامن شخصیت کے طور پر صدر معصوم کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ بعد ازاں امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے کہا کہ امریکا اس عمل کی حمایت کرتا ہے کہ عراق میں تمام مذہبی اور سیاسی گروپوں کی شمولیت کے ساتھ ایک متفقہ قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ ترجمان کے بقول واشنگٹن حکومت ایسی کسی بھی پیش رفت کی مخالف ہے، جس کے تحت نئے عراقی وزیر اعظم کے انتخاب کے جمہوری عمل میں رخنے ڈالے جا سکیں۔

Propagandabild IS-Kämpfer
سنی عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جنجگوتصویر: picture-alliance/abaca

نو منتخب عراقی پارلیمان کا وہ اجلاس 19 اگست تک ملتوی کیا جا چکا ہے جو آج پیر کے روز ہونا تھا اور جس میں اگلی ملکی حکومت کے سربراہ کے چناؤ سے متعلق بحث کی جانا تھی۔

بغداد سے آمدہ دیگر رپورٹوں کے مطابق عراقی پارلیمان کے نائب اسپیکر حیدر العابدی نے آج پیر کو علی الصبح کہا کہ پارلیمان میں نمائندگی کی حامل شیعہ جماعتوں کا بلاک نئے عراقی وزیر اعظم کی نامزدگی کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس بیان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ نوری المالکی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر غالباﹰ ایک طرف ہونا پڑ سکتا ہے۔

عابدی نے اپنا یہ بیان ٹویٹر پر ایک تبصرے کی صورت میں لیکن ان رپورٹوں کے کچھ ہی دیر بعد دیا کہ بغداد میں اہم ترین مقامات پر اضافی اسپیشل فورسز اور المالکی کے حامی ملیشیا گروپوں کے ارکان کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید