امريکا ميں زير حراست ايرانی خاتون صحافی رہا
25 جنوری 2019امريکا ميں پيدا ہونے والی اور ايرانی ٹيلی وژن چينل پر ايک پروگرام کی ميزبان مرضيہ ہاشمی کو دس دن حراست ميں رکھے جانے کے بعد رہا کر ديا گيا ہے۔ اس بارے ميں جاری کردہ بيان ميں مطلع کيا گيا ہے کہ ہاشمی نے وفاقی سطح کی ايک تفتيش ميں چار مرتبہ گواہی دی۔ انہيں منگل کی شب رہا کيا گيا اور فيڈرل گرينڈ جيوری کے سامنے انہوں نے آخری مرتبہ اسی ہفتے بدھ تئیس جنوری کو گواہی دی۔ امريکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج بيرل ہاؤول نے ان کی رہائی کے احکامات جاری کيے۔
ہاشمی کی امريکا ميں حراست سے واشنگٹن اور تہران کے پہلے سے تناؤ کے شکار تعلقات ميں مزيد کشيدگی پيدا ہوئی۔ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پچھلے سال مئی ميں جوہری ڈيل سے دستبرداری اور پابنديوں کی بحالی کے اعلان کے بعد سے ان روايتی حريف ممالک کے تعلقات مسلسل تناؤ کے شکار ہيں۔
ہاشمی کی اسی ماہ کے وسط ميں گرفتاری کی خبر پريس ٹی وی پر نشر ہوئی تھی۔ پريس ٹی وی کے مطابق، ’’ہاشمی کے اہل خانہ کو اس بارے ميں تحفظات ہيں اور وہ يقين دہانی کے طلب گار ہيں کہ ايسا آئندہ کسی بھی مسلمان يا کسی بھی فرد کے ساتھ نہيں ہو گا۔‘‘
انسٹھ سالہ ہاشمی کو امريکا کے وفاقی تحقيقاتی ادارے ايف بی آئی نے سينٹ لوئيس ليمبرٹ انٹرنيشنل ايئر پورٹ سے حراست ميں ليے جانے کے بعد دارالحکومت واشنگٹن کے ايک حراستی مرکز ميں منتقل کر ديا تھا۔ بعدازاں انہوں نے اپنی رہائی کے ليے احتجاجی مظاہروں کا مطالبہ بھی کيا تھا۔
واضح رہے کہ امريکا کا قانون يہ اجازت ديتا ہے کہ اگر کوئی گواہ اہم ہو، تو اسے جرم کی تفتيش کے سلسلے ميں تحويل ميں ليا جا سکتا ہے۔ امريکی حکومت نے يہ بتانے سے انکار کر ديا ہے کہ مرضيہ ہاشمی کو کس معاملے کی تفتيش کے ليے حراست ميں رکھا گيا۔
ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں