امريکی ڈرون حملوں ميں واضح کمی، رپورٹ
5 فروری 2014امريکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی منگل کے روز شائع کردہ اِس رپورٹ ميں ايک امريکی اہلکار کے حوالے سے بتايا گيا ہے کہ پاکستان نے اِس سلسلے ميں واشنگٹن سے رجوع کيا، جِس پر واشنگٹن نے اُنہيں ’نہ‘ نہيں کہا۔ واشنگٹن پوسٹ کی اِس رپورٹ کے مطابق امريکی صدر باراک اوباما کی انتظاميہ نے يہ واضح کيا ہے کہ حملوں ميں کمی کے باوجود دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ کے کسی اعلی اہلکار کی موجودگی يا پھر امريکيوں کو درپيش کسی براہ راست خطرے کی صورت ميں ڈرون حملہ کيا جا سکتا ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دسمبر سے ڈرون حملوں کا سلسلہ منقطع ہے، سو اِس سلسلے ميں 2011ء سے لے کر اب تک کا سب سے طويل عرصہ ہے۔ واضح رہے کہ تاحال ديگر ذرائع سے ايسی رپورٹوں کی تصديق نہيں ہو پائی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ ڈرون حملوں کی تعطلی يا اُن ميں کمی کا سلسلہ گزشتہ برس پاکستان ميں تحريک طالبان پاکستان کے سابق رہنما حکيم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے جاری ہے، جو ايک ڈرون حملے ہی ميں ہلاک ہوا تھا۔ يہ حملہ پاکستان کے مشير برائے خارجہ امور سرتاج عزير کے اُس اعلان کے ايک ہی روز بعد کيا گيا تھا، جِس ميں اُنہوں نے يہ کہا تھا کہ امريکا نے طالبان کے ساتھ امن مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملے ترک کر دينے کا وعدہ کر ليا ہے۔
پاکستانی وزير اعظم نواز شريف يہ کہہ چکے ہيں کہ وہ امريکی ڈرون حملوں کا خاتمہ چاہتے ہيں۔ دوسری جانب پاکستان کے عوام امريکی ڈرون حملوں کے معاملے پر منقسم ہيں۔ جہاں چند دھڑوں کا ماننا ہے کہ روايتی عسکری کارروائيوں کی نسبت ڈرون حملے طالبان جنگجوؤں کے خلاف سب سے کارآمد ہتھيار ثابت ہوتے ہيں اور اِن سے سويلين ہلاکتيں بھی کم از کم ہوتی ہيں، وہيں کچھ حلقے اِن حملوں کی مخالفت کرتے ہيں۔ اُن کا موقف ہے کہ ڈرون حملے خوف و حراس اور شہريوں کی جانوں کے ضياع کا سبب ہی نہيں بنتے بلکہ يہ پاکستان کی خودمختاری کے خلاف بھی ہيں۔
ايک برطانوی ادارے کی جانب سے جاری کردہ ايک تازہ سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امريکا کی جانب سے پاکستانی علاقوں ميں کيے جانے والے ڈرون حملوں ميں مجموعی طور پر صرف چار سويلين ہلاک ہوئے، جو 2004ء سے شروع ہونے والے ڈرون پروگرام کی تاريخ ميں سالانہ بنيادوں پر اب تک کی سب سے کم تعداد ہے۔