امریکا اور افغان طالبان کی دوحہ میں مذاکرات کی تردید
19 فروری 2015یہ دو طرفہ تردید چند طالبان رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے اُس بیان کی نفی کرتی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ چند ہفتوں کے اندر اندر خلیجی ریاست قطر میں امریکا اور طالبان کے نمائندے امن مذاکرات کے لیے جمع ہوں گے۔
طالبان ذرائع کی مدد سے سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ طالبان سپریم کونسل کے پانچ سابق ارکان جلد ہی امریکی اہلکاروں کے ساتھ افغانستان میں 13 سالہ جنگ کے وہاں قیام امن کو ممکن بنانے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ قطر میں دوبارہ شروع کریں گے۔
لیکن ان خبروں کے بعد جمعرات ہی کو امریکا میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے کہہ دیا گیا کہ فی الحال افغان طالبان اور امریکا کے نمائندوں کے مابین قطر میں امن بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ امریکا کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی خاتون ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ’’امریکا کی طالبان کے ساتھ دوحہ میں فی الحال کوئی بات چیت طے نہیں ہے۔ ہم افغانستان کی سربراہی میں جاری اُن مصالحتی کوششوں کی حمایت کرتے رہیں گے جن کے ذریعے طالبان اور افغان حکومت کو ملک میں پائے جانے والے تنازعات کے حل کے لیے آپس میں مذاکرات کرنے چاہییں۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے اس بیان سے قبل افغان طالبان کے ایک رہنما نے ٹیلی فون پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا تھا کہ امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کا پہلا دور آج جمعرات کو دوحہ میں ہو رہا ہے جبکہ دوسرا دور جمعے کے روز ہو گا۔
بعد ازاں طالبان کی مرکزی کمان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا کہ بعض ذرائع ابلاغ نے غیرذمہ دارانہ رپورٹیں شائع کی ہیں کہ آج ’امارت اسلامیہ افغانستان قطر میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کررہا ہے اور اس بارے میں ایک وفد کو بھی قطر بھیجا گیا ہے‘۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ مذاکرات سے متعلق افغان طالبان کی ’پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں‘ آئی اور نہ ہی طالبان کو اس بارے میں کوئی جلدی ہے۔ طالبان کے ترجمان کے بقول، ’’ہم اس دعوے کی پرزور تردید کرتے ہیں۔ قطر آفس میں کسی کے ساتھ اس قسم کی بات چیت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘
گزشتہ برسوں کے دوران طالبان، کابل انتظامیہ اور افغان حکومت کے سب سے بڑے حامی امریکا کے مابین امن مکالمت کو دوبارہ شروع کرنے کی متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں۔ طالبان نے 2013ء میں قطر میں اپنا ایک دفتر قائم کیا تھا، جسے امن مذاکرات کی طرف پہلا ممکنہ قدم تصور کیا جا رہا تھا۔ یہ دفتر ایک ماہ بعد ہی بند کر دیا گیا تھا۔ وجہ اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کا رویہ بنا تھا، جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ قطر میں طالبان کے دفتر کی حیثیت ممکنہ طور پر کسی جلاوطن حکومت کے غیر سرکاری سفارتخانے کی سی ہوتی۔