امریکہ کے چیلنجز: افغان مشن سے آگے بھی
31 جولائی 2010امریکہ نے میکسیکو اور وسطی امریکہ کی دیگر ریاستوں میں حکومتوں کو مستحکم بنانے، بدعنوانی پر قابو پانے اور فعال اداروں کے قیام کے لئے ماہانہ چار کروڑ 40 لاکھ ڈالر مختص کر رکھے ہیں۔
افغانستان میں امریکی اخراجات اور امریکہ کے ہمسایہ ممالک میں واشنگٹن حکومت کے اخراجات کا موازنہ کرتے ہوئے امریکی ترجیحات کے بارے میں متعدد سوال جنم لیتے ہیں۔ مختص کردہ مالی وسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک ممکنہ نتیجہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ کے لئے میکسیکو، گوئٹے مالا، ہونڈوراس اور ایل سلواڈور جیسے قریبی ممالک کے مقابلے میں افغانستان کی سلامتی اور وہاں بہتر نظم نسق 147 گنا زیادہ اہم ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وسطی امریکہ میں قتل کی وارداتوں کی شرح دنیا کے کسی بھی خطے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ وہاں ہر مہینے اوسطاً 1,300 افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ بیشتر وارداتوں کی ذمہ داری منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں اور جرائم پیشہ مخالف پارٹیوں پر ڈالی جاتی ہے۔
اس خطے میں ڈکیتی، جنسی زیادتیاں، استحصال، اغوا برائے تاوان اور کار چوری کی وارداتیں عام ہیں۔ جرائم کے اس گرم بازار میں زندگی کی کوئی قیمت نہیں، گرفتاریاں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ مجرموں کے لئے معافی ایک قانون بن گیا ہے۔ تاہم میکسیکو کے صدر فلیپے کالڈارون کی نظر میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 90 فیصد ہلاکتیں منشیات کے گروہوں کے درمیان لڑائی کا نتیجہ ہوتی ہیں یعنی ایک برُا آدمی دوسرے بُرے آدمی کو مار رہا ہے۔
ایسے ہی حالات کی وجہ سے امریکہ ان ریاستوں میں پُرتشدد کارروائیوں پر قابو پانے کے لئے مدد فراہم کر رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں امریکہ نے انہیں ہیلی کاپٹروں سمیت متعدد آلات فراہم کئے تھے۔ میکسیکو میں اسپیشل فورس کے اہلکاروں کو تربیت بھی دی گئی تھی۔
اس مقصد کے لئے قانون سازی سابق امریکی صدر جارج بش نے 2008ء میں کی تھی، جس کے تحت تین سال کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی مالی معاونت پر اتفاق ہوا تھا۔ اس امریکی اقدام سے خطے کی صورت حال میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ نتیجہ تقریباﹰ صفر ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے ان ریاستوں کو وعدے کے مطابق تربیت اور آلات فراہم نہیں کئے۔
رپورٹ: بیرنڈ ڈیبسمین (کالم نگار، روئٹرز) / ندیم گِل
ادارت: امجد علی