1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Media and morals

اسپنسر کمبال/ افسر اعون11 فروری 2015

امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کی جانب سے اردن کے پائلٹ کو ہلاک کرنے کی ویڈیو پوسٹ کرنے کے فیصلے پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ پیغمبر اسلام کے خاکوں کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آخر صحافتی اخلاقیات کی آخری حد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EZhF
تصویر: Fox News

امریکا کے زیادہ تر نشریاتی اداروں کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے جاری کردہ پراپیگنڈہ ویڈیو کو جگہ نہ دی جائے۔ اسلامک اسٹیٹ کی جاری کردہ اس ویڈیو میں اردن کے پائلٹ معاذ الکسسبہ کو ایک پنجرے میں بند کر کے زندہ جلا دیا تھا۔ اس پائلٹ کا جہاز گزشتہ برس دسمبر میں شام میں اس وقت گر کر تباہ ہو گیا تھا جب وہ امریکی سربراہی میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی کارروائیوں میں شریک تھا۔

سی این این کی اینکر ایشلی بینفیلڈ Ashleigh Banfield کا اپنے نیٹ ورک پر اس ویڈیو سے لی گئی تصاویر شائع نہ کرنے کی وجوہات کچھ اس طرح سے بتائیں: ’’یہ تصاویر انتہائی خوفناک ہیں۔ پھر پراپیگنڈا کے لحاظ سے یہ اسلامک اسٹیٹ کے ارکان کے بہت زیادہ حق میں جاتی ہیں اور اسی وجہ سے امریکا یا کوئی بھی امریکی براڈکاسٹر ان تصاویر کو پھیلانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔‘‘

تاہم امریکا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والا ٹیلی وژن نیٹ ورک فاکس نیوز کی طرف سے فیصلہ کیا گیا کہ وہ اپنی ٹیلی وژن نشریات کے دوران الکسسبہ کو زندہ جلائے جانے کی تصاویر دکھائے گا۔ امریکا میں یہ واحد نیٹ ورک تھا جس نے اپنی ویب سائٹ پر اس ویڈیو کو بغیر کسی ایڈیٹنگ کے جاری کیا۔

حملے کے بعد فاکس نیوز کے مارننگ شو ’فاکس اینڈ فرینڈز‘ میں شارلی ایبڈو کے شمارے کو دکھایا گیا تھا جس پر پیغمبر اسلام کا خاکہ موجود تھا
حملے کے بعد فاکس نیوز کے مارننگ شو ’فاکس اینڈ فرینڈز‘ میں شارلی ایبڈو کے شمارے کو دکھایا گیا تھا جس پر پیغمبر اسلام کا خاکہ موجود تھا

فاکس نیوز کے ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ جان موڈی کے مطابق، ’’محتاط غور و فکر کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم فاکس نیوز ڈاٹ کام کے پڑھنے والوں کو آئی ایس آئی ایس کی سفاکی خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اختیار دیں۔ مگر ساتھ ہی اس ویڈیو کے خوفناک مواد کے بارے میں قانونی طور پر انہیں پہلے سے ہی آگاہی بھی دے دی گئی۔‘‘ ان کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے، ’’آن لائن صارفین خود اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘‘

فاکس نیوز کی طرف سے یہ ویڈیو آن لائن جاری کرنے کے فیصلے پر عوامی سطح پر ایک بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ فاکس نیوز سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے بھی اس پر اعتراض اٹھایا ہے۔ میڈیا بَز نامی پروگرام کے میزبان ہاورڈ کُرٹز بھی انہی میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’میڈیا میں ہم میں سے بعض اسلامک اسٹیٹ کی مدد کر رہے ہیں کہ وہ اپنے خوفزدہ کرنے والے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پراپیگنڈا کو پھیلائیں۔‘‘

فاکس نیوز کی طرف سے الکسسبہ کو جلانے کی ویڈیو تو آن لان شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ روزہ شارلی ایبڈو پر ہونے والے حملے کے بعد اس میگزین کی طرف سے پیغمبر اسلام کے جو خاکے جاری کیے گئے وہ اس نیٹ ورک نے دوبارہ شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

حملے کے بعد فاکس نیوز کے مارننگ شو ’فاکس اینڈ فرینڈز‘ میں شارلی ایبڈو کے شمارے کو دکھایا گیا تھا جس پر پیغمبر اسلام کا خاکہ موجود تھا۔ تاہم اس نیٹ ورک کے ترجمان نے بعد ازاں میڈیا کو بتایا کہ فاکس نیوز کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ ایسے خاکے مستقبل میں نشر کرے گا۔ تاہم اس ادارے کی ویب سائٹ پر حملے کے بعد شارلی ابیڈو کے شائع ہونے والے شمارے کا صفحہ اول شائع کیا گیا تھا۔

میڈیا ایتھکس یا میڈیا میں اخلاقی اقدار کے موضوع پر مہارت رکھنے والے رائے پٹر کلارک Roy Peter Clark کے مطابق ان دونوں معاملات میں فرق ہے۔ Poynter Institute سے تعلق رکھنے والے کلارک کے مطابق پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے سے اس میڈیا آرگنائزیشن کے خلاف خوف ناک تشدد کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جو یہ فیصلہ کرے۔ جبکہ اردن کے پائلٹ کو زندہ جلانے کی ویڈیو جاری کرنے میں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔