امریکی وزیر دفاع غیر اعلانیہ دورے پر کابل میں
7 جون 2012کابل روانگی سے قبل امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں حالیہ اضافے کے علاوہ وہاں سے نیٹو افواج کے انخلاء کے حوالے سے افغانستان میں تعینات فوجی کمانڈروں کے تخمینے اور منصوبے جاننا چاہتے ہیں۔
افغانستان میں بدھ چھ جون کو ملک کے جنوبی صوبہ قندھار میں قائم نیٹو ایئر بیس کے لیے ساز و سامان لے جانے والے ٹرکوں کے ایک اڈے پر ایک خودکش موٹر سائیکل سوار اور ایک پیدل خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔ اس دوہرے خودکش حملے میں 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کے حوالے سے لیون پنیٹا کا بدھ ہی کے روز کہنا تھا کہ یہ حملہ ’ سب سے زیادہ منظم طریقے سے کیا گیا، جو اس قبل ہم نے دیکھے ہیں‘۔
دوسری طرف بدھ ہی کے روز افغان صوبہ لوگر میں ایک مکان پر نیٹو طیاروں کی فائرنگ سے خواتین اور بچوں سمیت 18 افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ لوگر کے نائب پولیس سربراہ رئیس خان صادق عبدالرحیم زادے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ 18سویلین ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔‘‘ عبدالرحیم زادے کے مطابق سات طالبان عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے۔ نیٹو کی بین الاقوامی امدادی فوج کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ فضائی حملے میں متعدد عسکریت پسند ہلاک ہوئے اور یہ کہ یہ فضائی حملہ نیٹو فوجیوں کے عسکریت پسندوں کے حملے کی زد میں آنے پر کیا گیا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے کابل روانہ ہوتے ہوئے پنیٹا کا کہنا تھا کہ وہ ’اس بات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ وہاں دراصل کیا ہو رہا ہے اور طالبان کیا کر رہے ہیں‘۔ پنیٹا کا مزید کہنا تھا، ’’ وہاں حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجموعی طور پر افغانستان میں تشدد میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کمی واقعی ہوئی ہے۔
امریکی محمکہ دفاع پینٹاگان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن سے ملاقات میں یہ جاننا چاہیں گے کہ انہوں نے نیٹو افواج کے بتدریج انخلاء اور طالبان کی طرف سے اس دوران بڑھتی کاررائیوں کے تناظر میں وہاں سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے کیا منصوبے بنائے ہیں۔
کابل کے اپنے مختصر دورے کے دوران وہ کابل میں تعینات امریکی سفیر ریان کروکر سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد وہ امریکی فوجیوں اور اپنے افغان ہم منصب عبدالرحیم وردک سے بھی ملیں گے۔
aba/ah (AFP)