1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی ڈالر کی عالمی حیثیت میں کمی واقع ہو سکتی ہے

17 اگست 2018

ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں کی کرنسیاں لڑکھڑا رہی ہیں۔ ان میں روس کی کرنسی روبل بھی شامل ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کی عالمگیر کرنسی کی حیثیت ’ختم‘ ہونے والی ہے۔

https://p.dw.com/p/33JE1
Euro Dollar Rial Währung Iran
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

کرنسی کی قدر میں استحکام سے بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے نوٹ جاری کرنے والے مجاز ادارے کو اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت امریکی ڈالر کے لیے حالات اِس لیے ساز گار نہیں ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ کچھ عرصے میں متعدد ممالک کے حوالے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ ٹرمپ دور میں امریکا اور دوسری بڑی اقتصادیات کے ملک چین سے لے کر کئی دوسری چھوٹی معیشتوں کے ممالک کے ساتھ بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اس وقت چین کے ساتھ ایک طرح کی اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ کئی دوسرے اتحادی ممالک کی درآمدات پر بھی انہوں نے اضافی محصولات کا نفاذ کر دیا ہے۔ امریکی صدر روس پر بھی پابندیوں کا نفاذ کر چکے ہیں اور اب انہوں نے ترکی کو اپنے پابندیوں میں جکڑ لیا ہے۔ انہی جھگڑوں کے تناظر میں ترکی اور روس نے امریکی ڈالر کی حیثیت پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دی ہیں۔

Symbolbild Handelskrieg USA und China mit Dollar- und Yuan-Geldschein
چینی یوان اور امریکی ڈالر کے درمیان بھی مسابقتی عمل بھی دیکھا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/chromorange/C. Ohde

عالمی اقتصادیات میں امریکی ڈالر کی عالمگیر کرنسی کے طور پر حیثیت چودہ فروری سن 1945 سے شروع ہوتی ہے۔ ایک بحری جہاز پر منعقدہ خصوصی تقریب میں اُس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ اور سعودی عرب کے شاہ خالد ابنِ سعود موجود تھے۔ اسی تقریب میں تیل کی فروخت امریکی ڈالر میں کرنے کی بات طے ہوئی تھی اور صدر روزویلٹ نے سعودی عرب کے عسکری تحفظ کا یقین بھی دلایا تھا۔

سعودی عرب اور امریکا کے درمیان بعض سفارتی تنازعات کے باوجود یہ ڈیل برقرار رکھی گئی۔ عالمی سطح پر تیل کی ضروریات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اسی طرح امریکی ڈالر کی حیثیت بھی مستحکم ہوتی چلی گئی۔ روزویلٹ اور سعودی بادشاہ کے درمیان سن 1945 کی ڈیل نے امریکی ڈالر کو سیاہ سونے (خام تیل) کے ساتھ ایسا نتھی کیا اب امریکی ڈالر ہی اقوام کے درمیان تجارت کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔

دنیا کے پچاسی فیصد بین الاقوامی کاروباری سودوں کا لین دین امریکی ڈالر ہی میں ہوتا ہے اور یہ بھی دنیا میں امریکی غلبے کا ایک نشان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکی ڈالر کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ بعض ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔

Rubel Banknote
ترک لیرا کی طرح روسی روبل کی قدر بھی عدم استحکام کا شکار رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/E. Ducke

موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کئی ملکوں اور خاص طور پر چین پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں دانستہ طور پر کم رکھ رہا ہے تا کہ اقوام عالم میں یہ احساس پیدا ہو کہ چینی کرنسی بھی مضبوط ہے۔

بعض اوقات ٹرمپ بڑے دعوے کرتے ہیں اور بعد میں وہ ان سے پیچھے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی اقتصادی پالیسی اُن کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ترکی اور روس نے اپنی دو طرفہ تجارت میں اپنی اپنی کرنسیوں کے استعمال کا اعلان کیا ہے اور وہ یقینی طور پر ڈالر کے استعمال سے گریز چاہتے ہیں۔

ایسے اقتصادی ماہرین موجود ہیں جن کا کہنا ہے کہ ترکی اور روس جیسا رویہ اگر بقیہ ممالک بھی اپناتے چلے گئے تو امریکی ڈالر کی انٹرنیشنل تجارت میں حیثیت کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ دوسری جانب ایسے ماہرینِ اقتصادیات بھی ہیں جن کے مطابق امریکی ڈالر انفرادی سطح پر بہت مستحکم ہے اور سرمایہ کار اس کرنسی کے استعمال پر اعتماد رکھتے ہیں۔