امن کے پیامبر گوتَم بُدھا
بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کوامن کا پیامبر کہا جاتا ہے۔ لیکن دو پڑوسی ممالک بھارت اور نیپال کے درمیان اس بات پر تکرار ہوگئی ہے کہ گوتم بدھاکا تعلق دونوں میں سے کس ملک سے ہے اوران کی وراثت کا اصل حقدار کون ہے؟
گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت؟‘
نیپال اور بھارت میں تنازع اس وقت پیدا ہوگیا جب بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ’گوتم بدھا بھارت کی عظیم شخصیت‘قرار دے دیا۔ لیکن نیپالی وزیر اعظم نے انہیں یاد دلایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹھمنڈو کے دورے کے دوران تسلیم کیا تھا”نیپال وہ سرزمین ہے جہاں دنیا میں امن کے پیامبر گوتم بدھا پیدا ہوئے تھے۔“
بودھ گیا اور لمبنی میں سے کون اہم؟
تاریخی شواہد کے مطابق بودھ مت کے بانی گوتم بدھا کی پیدائش نیپال کے لمبنی شہر میں ایک راج گھرانے میں ہوئی۔ لیکن وہ دنیاکی بے ثباتی سے مایوس ہو کراپنا گھر بار چھوڑ کر خدا کے عرفان کی تلاش میں نکل پڑے اورسفر کرتے ہوئے بھارتی صوبے بہار کے ایک غیر آباد علاقے بودھ گیا پہنچ گئے۔ جہاں ان کی یاد میں یہ مہابودھی مندر قائم ہے۔
’نروان حاصل ہوگیا‘
کہا جاتا ہے کہ اسی ’بودھی درخت‘کے نیچے انہوں نے چھ برس تک مراقبہ کیا اور سخت مجاہدے کے بعدان پریہ حقائق منکشف ہوئے کہ ”صفائے باطن اور محبت خلق“ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے۔اس برگد کے درخت کوبودھ مت میں انتہائی عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔ چند برس قبل کسی ’عقیدت مند‘ نے اس کی شاخ توڑ لی تھی جس کے بعد حفاظت کے لیے اس کے گرد لوہے کا حصار بنادیا گیا ہے۔
مقدس نشان
بودھ گیا صوبہ بہار کے تاریخی شہر گیا سے 15کلومیٹر دور ہے۔ یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں اور نشانیاں موجود ہیں۔ گوتم بدھا نے اپنی تعلیمات کے فرو غ کے لیے 44 برس تک پورے بھارت کے دورے کیے۔ 80 برس کی عمر میں 384ق م میں ان کی موت ہوئی۔ مہابودھی مندر میں واقع اس نشانی کو گوتم بدھا کے پاوں کا نشان بتایا جاتا ہے۔
ہرشخص تارک دنیا نہیں ہوسکتا
بودھ مت کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا۔ اس لیے جیسے جیسے معتقدین کا حلقہ بڑھتا چلا گیا تو راہبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر جلد ہی گوتم بدھا نے محسوس کر لیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہو سکتاہے لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کر دیا۔
ذا ت پات کا چکر
بودھ مت بھی اونچ نیچ اور ذات پات سے محفو ظ نہیں ہے۔ یہ اختلافات گوتم بدھا کی زندگی میں اسی وقت پیدا ہوگئے تھے جب انہوں نے ایک بھنگی کو اپنی جماعت میں داخل کرلیا تھا۔ذات پات کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل باعث نزاع بن گئے جس کی وجہ سے گوتم بدھ کی موت کے بعد بدھ مت کے ماننے والے مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔
بودھ مت کے ماننے والے 535 ملین
بودھ مت کے ماننے والے آج دنیاکے بیشتر ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ دلائی لامہ ان کے اعلی ترین مذہبی پیشوا ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں بودھ مت کے ماننے والوں کی تعداد 535 ملین کے قریب ہے۔ بھارت میں ان کی تعداد 92 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
بودھ مت کا زوال
گوتم بدھا کی وفات کے بعد بودھ مت پانچ سو سال تک مسلسل ترقی کرتا رہا اور رفتہ رفتہ بھارت کے علاوہ افغانستان، چین، برمااور مشرقی جزائر میں پھیل گیا۔ اور ایشیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد اس کی ترقی رک گئی اور اس کا زوال شروع ہو گیا۔ بھارت میں اس کے پیروؤں کی تعداد دن بدن کم ہوتی گئی۔ بھارت میں آئینی طور پر تسلیم شدہ چھ مذہبی اقلیتوں میں بودھ بھی شامل ہیں۔
بودھوں کا قتل عام
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں بودھ مت کے زوال کی بنیادی وجہ برہمنوں کی مخالفت تھی کیوں کہ وہ اسے ہندو دھرم کی ترقی کے خلاف سمجھتے تھے لہذا پہلے تو بودھ مت کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی پھر بودھوں کے خلاف مہم چلاکر بڑے بے دردی سے ان کا قتل عام کیا گیا۔
چار بنیادی باتیں
بودھ مت میں چار بنیادی باتوں پر زور دیا جاتا ہے۔ اول زندگی دکھ ہی دکھ ہے۔ دوئم دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔سوئم خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے اور چہارم خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چاہیے۔ اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم، راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی وجد شامل ہیں۔
بودھ مت کا احیاء
بودھ مت کو آج کل اہنسا اور امن کے مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں تیز ہورہی ہیں۔ یوں تو دنیا کے بیشتر ملکوں میں بودھ مت کے ماننے والے ہیں تاہم سب سے بڑی تعداد چین میں ہے۔ تھائی لینڈ، جاپان، میانمار، سری لنکا، ویت نام، کمبوڈیا، جنوبی کوریا،بھارت اور ملائشیا میں بھی ان کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ متن: جاوید اختر، نئی دہلی