’انسانی حقوق پر طالبان کے موقف پر تشویش ہے‘
29 اگست 2019دوحہ میں جاری مذاکرات سے بہت سارے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن افغان خود اس بات چیت کا حصہ نہیں۔ اس سے ظاہریہ ہوتا ہے کہ فریقین خود کو افغان عوام کے آگے جوابدہ نہیں سجھتے۔
افغان حکومت کو ان مذاکرات کی تفصیلات شہریوں کو فراہم کرنی چاہیے لیکن چونکہ وہ خود مذاکرات کا حصہ نہیں، اس لیے کچھ بتا نہیں سکتے۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے، ظلمے خلیل زاد نے بارہا وضاحت کی ہے کہ دوحہ میں جاری بات چیت میں افغانستان کے داخلی امورپر بات چیت نہیں ہو رہی اور اس پر بعد میں افغان فریقین کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔
مگر میرے خیال میں دوحہ مذاکرات کے افغانستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں۔ ہمارا کہنا بس یہ ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی بھی ایسا معاہدے نہیں ہونا چاہیئے جو افغان شہریوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہو۔
جولائی میں آپ کی دوحہ میں طالبان نمائندوں سے ملاقات ہوئی۔ کیا انسانی حقوق کےحوالے سے آپ کو طالبان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی محسوس ہوئی؟
شہرزاد اکبر: طالبان قیادت کا دعویٰ ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے اُن کے موقف میں پہلے کی نسبت کافی نرمی آئی ہے۔ لیکن اگر آپ بغور جائزہ لیں تو آپ کو اُن کے موقف میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئے گی ۔ طالبان کے زیرِکنٹرول علاقے اُن کے دعوؤں سے ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس گروپ کا خواتین کے ساتھ رویہ اب بھی ویسا ہی ہے۔
ساتھ ہی طالبان افغانستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم نے قطر میں ان سے پوچھا کہ ایسے کونسے قوانین ہیں جنہیں وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے کوئی خاص جواب دیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ وہ کن قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں تمام قوانین اسلامی تعلیامات کے عین مطابق ہیں۔ اگر طالبان کو ان قوانین سے کوئی مسئلہ ہے تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگوں پر سخت گیراسلام لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے نزدیک طالبان کا انسانی حقوق سے متعلق مؤقف باعثِ تشویش ہے۔
طالبان کو افغانستان میں بے شمار لوگوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے بعض کارکنان کہتے ہیں کہ اگر امریکا ان کے ساتھ ڈیل کرکے معاف کردیتا ہے تو یہ مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ آپ کیا کہیں گے؟
شہرزاد اکبر: طالبان کے حملوں میں ہلاک ہونے والی اکثریت عام شہریوں کی ہے اس لیے اس معاملے پر عوام کی آواز ہر صورت سنی جانی چاہیئے۔ ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ طالبان کے ساتھ ساتھ بین القوامی طاقتیں بھی ہلاکتوں کی ذمہ دار ہیں۔
اِسی لئے اگر ہم ممکنہ معاہدے میں انصاف کے تقاظوں کو نظر انداز کردیں گے تو افغانستان میں دیرپا امن قائم نہیں ہو پائے گا۔ ہمیں ایسے تمام جرائم کی تحقیقات یقینی بنانی ہیں نہیں تو ہم افغانستان میں انتقام کی آگ کو بجھا نہیں پائیں گے۔
(مسعود سیف اللہ، شکیلا ابراہیم خیل)