انقرہ میں بم دھماکہ، 28 ہلاک
17 فروری 2016ترک ذرائع نے بتایا ہے کہ دھماکے کے وقت وہاں سے فوجیوں کی ایک گاڑی گزر رہی تھی۔ حکام کے مطابق اس واقعے میں کم از کم دس شہری زخمی ہیں۔ یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا ہے، وہاں پر پارلیمان اور دیگر سرکاری عمارات کے علاوہ فوج کا مرکزی دفتر بھی واقع ہے۔ پولیس نے علاقے کو گھیر کر تفتیش شروع کر دی ہے۔ حکمران جماعت نے اسے ایک دہشت گردانہ عمل قرار دیا ہے۔ پولیس نے علاقے کو گھیر کر تفتیش شروع کر دی ہے۔ حکمران جماعت نے اسے ایک دہشت گردانہ عمل قرار دیا ہے۔
ترک وزیراعظم احمد داؤد اولو نے برسلز کا اپنا طے شدہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ جمعرات سے شروع ہونے والی دو روزہ یورپی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آج بیلجیئم کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا، جب ایک بڑی تعداد میں لوگ اس علاقے میں موجود تھے۔ دھماکے سے کئی گاڑیوں میں آگ لگ گئی۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم اس سے قبل کرد باغی، اسلامک اسٹیٹ اور بائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں اس طرح کے حملے کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ برس دس اکتوبر کو انقرہ میں ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔ اس دوران ایک پر امن ریلی کو نشانہ بنایا گیا تھا اور کل 102 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائیوں میں بھی امریکا اور اتحادی ممالک کا ساتھ دے رہا ہے۔اسی وجہ سے آئی ایس ترکی میں دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہی ہے۔
دوسری جانب ترکی کالعدم کردستان ورکز پارٹی کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں آج بدھ کے روز جنوب مشرق ایدیل نامی شہر میں کرفیو نافذ کرنے کے بعد سے پی کے کے اور سلامتی کے ترک اداروں کے اہلکاروں کے مابین شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ترک فوج نے اس دوران ٹینکوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کی پیش قدمی کے تناظر میں ترکی شام سے ملنے والی سرحد پر دس کلومیٹر چوڑے غیر فوجی زون کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہے۔