انٹرپول ریڈ وارنٹ ’گرفتاری کا عالمی نظام خطرے میں‘
5 اپریل 2019انٹرپول یا بین الاقوامی پولیس آرگنائزیشن کی جانب سے ریڈ وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد دنیا کے کسی ملک کے حکام سے کسی ایسے ملزم کی گرفتاری کی درخواست کی جاتی ہے، جو انٹرپول کے کسی رکن ملک کو مطلوب ہوتا ہے۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے متعدد مرتبہ گرفتاری کے اس عالمی نظام پر تنقید کر چکی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کئی ممالک کی حکومتیں اپنے مخالفین و ناقدین کے ساتھ ساتھ خطرناک مجرموں کو گرفتار کرنے کے لیے اس نظام کا ناجائز استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے بقول اس نظام میں اصلاحات کے باوجود مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق روس، چین اور ترکی اس نظام کو ناجائز طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہیں۔ ساتھ ہی اس فہرست میں لاطینی امریکی خطے اور مشرق وسطی کے کئی ممالک کی آمرانہ طرز کی حکومتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم ’فیئر ٹرائلز‘ کے ایلکس مِک کے مطابق،’’اس بارے میں کوئی تفصیلات عام نہیں ہیں کہ دنیا کے کس ملک نے کتنی مرتبہ سیاسی طور پر یا غلط انداز میں ریڈ وارنٹ کا غلط استعمال کیا ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں،’’روس، چین اور ترکی کی طرح ہمارے سامنے مصر، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، ایران، انڈونیشیا، بحرین اور دیگر ممالک کی مثالیں بھی ہیں۔‘‘
اس تناظر میں بتایا گیا کہ مصر سے تعلق رکھنے والے سید عبدالطیف نے 2012ء میں تشدد کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر آسٹریلیا میں جا کر سیاسی پناہ لی تھی۔ تاہم انٹرپول قاہرہ کے کہنے پر ان کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کیے گئے تھے اور اسی بنیاد پر انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے مہاجرین کے لیے مخصوص ایک جیل میں پانچ سال گزارے۔ تاہم ورانٹ واپس لیے جانے کے بعد انہیں رہائی نصیب ہوئی۔
اسی طرح بحرین کے فٹ بالر حکیم العریبی کو بھی 2017ء میں آسٹریلوی حکام نے پناہ گزین کے طور پر قبول کیا تھا۔ تاہم اسی برس نومبر میں تھائی لینڈ میں ہنی مون کے دوران انہیں انٹرپول کے کہنے پر گرفتار کر لیا کیا گیا تھا۔ اس کی ایک مثال ترک نژاد جرمن مصنف دوگان اخانلی کی ہے، جنہیں ترکی کی جانب سے ریڈ وارنٹ کے اجراء پر اسپین میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ کئی ماہ تک اسپین سے باہر نہیں جا سکے تھے۔