’اوباما ایک تباہ کُن ناکامی کے دہانے پر‘
9 اکتوبر 2014ان دنوں شام اور ترکی کی سرحد پر واقع شہر عین العرب، جسے کُرد زبان میں کوبانی کہتے ہیں، عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ نے اس علاقے کے تیسرے شہر کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت کے خیال میں کوبانی کو آئی ایس کے قبضے سے بچانا اب مزید ممکن نہیں رہا ہے۔ اگر درحقیقت یہی صورتِ حال ہے تو کیا اس سے واشنگٹن حکومت کی اس علاقے پر فضائی حملوں کی حکمت عملی کی ناکامی کی نشاندہی ہوتی ہے؟ اس بارے میں خود سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی باراک اوباما پر ڈھکی چھپی تنقید کر چُکے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے صدر باراک اوباما کے کئی قریبی سرکردہ اہلکاروں کا نام ظاہر کیے بغیر اُن کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی شام کے علاقے کوبانی پر دہشت گرد عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ یقینی نظر آ رہا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کے جنرل مارٹن ڈمپسی امریکی ٹیلی وژن چینل اے بی سی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہہ چُکے ہیں کہ ’انہیں کوبانی کے سقوط کا خطرہ نظر آ رہا ہے"۔
اُدھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بُدھ کو واضح الفاظ میں کہا تھا:’’کوبانی کا تحفظ امریکی حکمت عملی کا ہدف نہیں ہے"۔
کیری کا مزید کہنا تھا کہ کوبانی کے واقعات کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہوں، امریکا کا ٹارگٹ آئی ایس کا بنیادی ڈھانچہ اور اُس کے کمانڈوز کے مراکز ہیں۔ امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی طرف سے کوبانی پر حالیہ مشترکہ فضائی حملوں میں واضح اضافے کے باوجود اس علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کی پیشقدمی مسلسل جاری ہے۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ اب تک سخت اور واضح الفاظ میں کہتا رہا ہے کہ ’امریکا ایک تباہ کُن شکست کے دھانے پر کھڑا ہے‘، ایک ایسی جنگ میں جسے اوباما نے غیر ضروری احتیاط، پابندیوں اور خود کو حد سے زیادہ محدود رکھتے ہوئے شروع کی تھی۔
غلط حکمت عملی
واشنگٹن پوسٹ کی تنقید کے برعکس امریکا میں قائم بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے منسلک ایک ماہر، مائک او ہان لان کا کہنا ہے کہ کوبانی میں اب تک ہونے والے امریکی فضائی حملوں کے غیر مؤثر ہونے کو امریکی حکمت عملی کی ناکامی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ ایک اور شہر کا سقوط نظر آ رہا ہے اور یہ امر کتنا ہی افسوسناک کیوں نہ ہو، امریکی حکمت عملی کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہے‘‘۔
واشنگٹن کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے امور مشرق وسطیٰ کے ایک ماہر جِم فلپس کا کہنا ہے کہ کوبانی سے متعلق اوباما کی حکمت عملی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے تاہم آیا امریکی فضائی حملوں میں تیزی کے بعد اس کے واضح اثرات مرتب ہوں گے، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اس کے لیے کچھ انتظار کی ضرورت ہے۔
جِم فلپس کو تاہم اس امر کا مکمل ادراک ہے کہ محض امریکی فضائی حملے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ اور اُسے تباہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’زمینی صورتحال کے بارے میں جب تک مکمل آگاہی نہیں ہوتی، تب تک فضائی حملے فیصلہ کُن اثرات مرتب نہیں کر سکتے‘۔
عراق کے برعکس شام میں امریکا اُن بنیادی شرائط کو پورا نہیں کر سکتا، جو اس ملک میں عسکری طور پر کسی کامیاب آپریشن کے لیے ضروری ہیں۔ جِم فلپس کہتے ہیں:’’شام اسٹرٹیجک اعتبار سے کہیں زیادہ پیچیدہ ملک ہے کیونکہ شام کی سرزمین پر امریکا کا کوئی حقیقی حلیف موجود نہیں ہے، جو فضائی حملوں کی تیاری اور آپریشن میں معاون اور مدد گار ثابت ہو۔‘‘