اوباما کے دورہ افغانستان کے بعد کابل میں حملے
2 مئی 2012کابل کا ایک انتہائی محفوظ علاقہ ’گرین ایریا‘ ایک خود کش کار بم دھماکے سے گونج اٹھا اور وہاں سے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ اس علاقے میں بہت سے غیر ملکی گیسٹ ہاؤسز قائم ہیں جن میں بین الاقوامی تنظیموں کے اہلکار مقیم ہیں۔
طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اوباما کی تقریر کا جواب ہے۔
اوباما نے اپنے مختصر دورہ افغانستان کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان شراکت کے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت 2014 ء کے اختتام پر بین الاقوامی فورسز کے انخلاء کے بعد امریکا افغانستان کو دس سال کے عرصے تک امداد فراہم کرے گا۔
اوباما نے صدر کرزئی کے صدارتی محل میں معاہدے پر دستخط کے بعد کہا: ’افغانستان میں صبح کے اس دھندلکے میں ہم افق پر ایک نئے دن کی روشنی نمودار ہوتی دیکھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم امن کے مستقبل کی جانب بے چینی سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم طویل المیعاد شراکت دار بننے پر اتفاق کر رہے ہیں۔‘
صدر کرزئی نے اس موقع پر کہا کہ یہ معاہدہ ’ہمسایہ ملکوں سمیت کسی بھی تیسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس سے خطے میں استحکام، خوشحالی اور ترقی آئے گی۔‘
افغان پولیس کے مطابق اوباما کی روانگی کے قریب دو گھنٹوں بعد کابل کے ایئر پورٹ کے نزدیک ایک خود کش کار بم دھماکہ ہوا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا: ’یہ اوباما کو پیغام ہے کہ ان کی فورسز کا افغانستان میں کبھی خیر مقدم نہیں کیا جائے گا اور ہم قابض فوجیوں کی ہلاکت یا ان کے ملک چھوڑ جانے تک اپنی مزاحمت جاری رکھیں گے۔‘
اس معاہدے میں واشنگٹن کی جانب سے افغانستان کے لیے مالی امداد یا فوجیوں کی مخصوص تعداد کا تعین نہیں کیا گیا ہے مگر امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان القاعدہ جیسے گروپوں کا دوبارہ گڑھ نہ بنے۔
منگل کو پینٹاگون کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے بیشتر حصوں میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے مگر پاکستان میں شورش پسندوں کی پناہ گاہیں اور بدعنوانی کے باعث ’طویل المیعاد اور انتہائی شدید چیلنجز‘ موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت 87,000 امریکی فوجی اور 44,000 بین الاقوامی فوجی موجود ہیں جبکہ افغان فوج اور پولیس کے اہلکاروں کی تعداد 344,000 ہے۔
(hk/km (AFP