اٹلی کے قصبے میں پاکستانیوں کا مہمان خانہ
12 اگست 2020اٹلی آنے والے پاکستانی طلباء کا بڑا مسئلہ یہاں رہائش کی تلاش کا ہوتا ہے۔ اس میں کتنے دن لگیں گے؟ اس بات کا انحصار شہر میں آپ کی جان پہچان پر بھی ہوتا ہے۔ پہلی بار آنے والے کسی بھی طالب علم کے لیے یہ بات خاصی پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے۔ اس لیے وہ ابتدائی دنوں میں ہوٹلوں میں رہتے ہیں، جہاں کم از کم کرایہ پچاس سے ڈیڑھ سو یورو تک ہوتا ہے ۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد سلمان مچراتہ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ لیکن وہ جب پہلی بار یہاں پہنچے تو انہیں ایسی کسی مشکل سے نہیں گزرنا پڑا کیوں کہ ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے کچھ پاکستانی پہلے سے موجود تھے: ''میں ان لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔ میرا ان لوگوں سے فیس بک کے ایک گروپ کے ذریعہ رابطہ ہوا تھا۔ مگر مجھے اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب وہ مجھے لینے کے لیے مچراتہ بس ٹرمینل آئے۔ مجھے نہ صرف رہائش دی بلکہ پاکستانی کھانا پکا کر پیش کیا۔ ‘‘
اس گھر میں پانچ افراد رہتے ہیں جو فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ گھر اتنا بڑا نہیں لیکن اس میں رہنے والوں کے دل بڑے ہیں، جس کے دروازے نئے آنے والوں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔
یہ لوگ پاکستانی طلباء کو اپنے گھر میں نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ مستقل رہائش کی تلاش میں ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ اس گھر کو ''پاکستان ہاؤس‘‘ کا نام یہاں کی مہمان نوازی سے مستفید ہونے والے پاکستانی طلباء نے دیا۔
اطالوی زبان، طلباء کی بڑی پریشانی
اسد نذیر کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ وہ جوتا بنانے والے ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں اور یہاں کئی سالوں سے مقیم ہیں۔
’’ہم پاکستانی طلباء کی ابتدائی دنوں میں جتنی ممکن ہو معاونت کرتے ہیں۔ انہیں سب سے بڑی رکاوٹ زبان کی پیش آتی ہے کیونکہ یہاں اطالوی زبان بولی جاتی ہے۔ ہم میں سے کسی کے پاس بھی وقت ہوتا ہے تو ہم ان طلباء کے ساتھ دفاتر میں جاکر ان کے کام کروادیتے ہیں اور بدلے میں ہمیں اچھے پاکستانی دوست مل جاتے ہیں۔‘‘
شہر میں کونسی بس کہاں جاتی ہے؟ ٹرین سے کیسے سفر کرنا ہے؟ رعایتی ٹکٹ کیسے ملے گا؟ پارٹ ٹائم جاب، ٹیکس نمبر کا حصول، رہائشی اجازت نامہ اور پولیس اسٹیشن میں اندراج سمیت دستاویزات کے لیے کسی بھی سرکاری دفتر کی معلومات درکار ہوں توپاکستانی طالب علم ''پاکستان ہاؤس‘‘ کا ہی رخ کرتے ہیں۔
پردیس میں تنہائی کا احساس
ناصر مانگٹ کا تعلق پنجاب کے شہر منڈی بہاءالدین سے ہے۔ وہ یہاں چھ سال سے مقیم ہیں اور ایک فیکٹری میں پیکنگ کا کام کرتے ہیں۔
اٹلی آنے پر انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا: ''میں جب یہاں آیا تھا تو اجنبیت اور تنہائی کا احساس ہمیشہ میرے ساتھ رہتا تھا۔ میں بس کوشش کرتا ہوں کہ کسی بھی پاکستانی طالب علم کو اس کیفیت سے بچاؤں۔ زیادہ تو کچھ نہیں کرسکتا بس ان طالب عملوں کی کچھ خدمت اور ان کی مدد کرکے دلی خوشی ہوتی ہے۔ یورپ کے اکثر بڑے شہروں میں پاکستانی طلباء کی ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیمیں نئے آنے والوں کی رہنمائی کرتی ہیں۔ ہم بغیر کسی تنظیم کے اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام کررہے ہیں۔‘‘