ایرانی قیادت کے طرز عمل پر اوباما کا محتاط رد عمل
20 جون 2009امریکی کانگریس نے تہران حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہرین پر تشدد اور آزادئ رائے کو دبانے کی کوششیں بند کرے۔ امریکی صدر اوباما گرچہ اب تک ایران کے بارے میں بیانات دینے میں خاصے محتاط رہے ہیں تاہم خامنہ ای کے خطاب کے بعد اوباما کی طرف سے پہلی بار ایرانی قیادت پر بالواسطہ حملہ سننے میں آ رہا ہے۔ ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں اوباما نے کہا کہ "وہ آیت اللہ خامنہ ای کے چند بیانات اور ان کے خطاب کے نچوڑ کے بارے میں متفکر ہیں۔ ایرانی قیادت کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ساری دینا کی نگاہیں اس وقت ان پر جمی ہوئی ہیں۔"
باراک اوباما کا بیان ان کے گزشتہ بیانات کے مقابلے میں سخت ہے تاہم ان کے لہجے میں اب بھی اتنی تیزی نہیں پائی جاتی جتنی کہ ایران کے ناقد یورپی ممالک کے سربراہان کے لہجے میں ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اوباما ایران کی صورتحال پر مزید واضح بیان اس وقت دیں گے جب تہران حکومت احتجاجی مظاہرین کے خلاف سخت تر اقدامات کرے گی۔ اب تک واشنگٹن کا موقف یہ رہا ہے کہ مظاہرین کی بہت زیادہ حمایت غالباً منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے گی۔
صدر اوباما نے بھی اس قسم کا تاثر دیتے ہوئے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ ان کی کبھی بھی یہ خواہش نہیں ہو گی کہ امریکہ ایسی ایرانی قوتوں کا پلیٹ فارم بنے جو امریکہ کو اس بحث میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ امریکہ کو اس قسم کے کسی کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔
اوباما کے اس محتاط رویے پر انہیں ریپبلکن پارٹی کی طرف سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب کہ ان کے ڈیموکریٹ ساتھی ان کی موجودہ ایران پالیسی پر خوش ہیں۔ گزشتہ روز امریکی کانگریس کے کے دونوں ایوانوں نے مشترکہ طور پرایک قرارداد کے ذریعے ایران میں آزادئ رائے اور میڈیا پر پابندی اور مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال کی مذمت کی گئی۔ تاہم واشنگٹن میں اسے ایرانی صدر کے ساتھ گستاخی یا ہتک کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ کانگریس کی قراردادیں اوباما کے خیالات کی منعکس ہیں۔
غیر جانب دار مبصرین امریکہ کی ایران پالیسی کو کانگیرس اور صدر کے مابین کاموں کی تقسیم سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ کانگریس کے ذریعے ایران کے حالیہ واقعات کے بارے میں اپنا موقف واضح کر رہا ہے، دوسری طرف امریکی صدر اوباما اپنے محتاط بیانات کے ذریعے تہران کی قیادت کے ساتھ اس کے ایٹمی تنازعہ اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر بات چیت کی راہ ہموار رکھنا چاہتے ہیں۔
اوباما نے اپنے ٹیلی وژن انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ انکا ملک ایران کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور دراصل یہ ایرانی عوام کا اپنا فیصلہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔