1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا میں سب سے زیادہ چھاتی کا سرطان پاکستانی خواتین میں

Kishwar Mustafa21 مئی 2012

ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں نوے ہزار سے زائد خواتین اس مرض کے علاج کے لیے ہسپتالوں سے رابطہ کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/14z9p
تصویر: picture alliance/CHROMORANGE

پاکستاں میں چھاتی کے سرطان کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چھاتی کے سرطان کے متعلق آگاہی پھیلانے والے ایک غیر سرکاری ادارے پنک ربن کے پاکستان میں قومی رابطہ کار(نیشنل کوارڈینیٹر) عمر آفتاب کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایشیا کے تمام ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں نوے ہزار سے زائد خواتین اس مرض کے علاج کے لیے ہسپتالوں سے رابطہ کرتی ہیں۔ یاد رہے اس تعداد میں وہ خواتین شامل نہیں ہیں جوکسی ہسپتال نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے تشخیص اور علاج کی سہولتوں سے محروم رہتی ہیں۔ پنک ربن کی طرف سے دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال چالیس ہزارعورتیں اس بیماری کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عمر آفتاب نے بتایا کہ پاکستان میں (نو میں سے ایک) یعنی ہر نویں عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے۔ جبکہ ان کے بقول بھارت میں ہر بائیسویں عورت کو اس بیماری کے خطرے کا سامنا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کئی دیگر امراض کی طرح کینسر کے مرض کے لیے بھی الگ رجسٹری قائم نہیں ہے۔ اس لیے سرکاری طور پر اس بیماری کے حوالے سے تفصیلی اعدادوشمار میسر نہیں ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے کوئی خاص تحقیقی کام بھی نہیں ہو رہا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ چھاتی کا سرطان کن علاقوں میں ، کن خاندانوں میں اور کن رجحانات کے تحت فروغ پا رہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں کون کون سے رسک فیکٹرز اہم ہیں۔ پاکستان میں طبی ماہرین مغربی محققین کا ڈیٹا ہی استعمال کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پنک ربن نے پاکستان میں اعلی تعلیم کے کمیشن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت چھاتی کے سرطان کے حوالے سے مقامی طور پر محدود تحقیق کی جا سکے گی۔

MR-Mammographie bei Brustkrebs am Universitätsklinikum Jena
میمو گرافی کے ذریع چھاتی کے سرطان کی علامات کا پتہ لگایا جا سکتا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

ایک سوال کے جواب میں عمر آفتاب نے بتایا کہ چھاتی کا سرطان کینسر کی وہ واحد بیماری ہے جس کی جلد تشخیص پر صحت یابی کے امکانات نوے فی صد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس مرض کے حوالے سے مناسب آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مریض خاص طور پر خواتین اس کی علامات ظاہر ہو جانے کے باوجود ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتیں اس وجہ سے مریض کی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔

لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں زیر علاج صغری نامی ایک خاتون نے بتایا کہ اس کے بچے کی کہنی لگنے سے اس کی چھاتی پر ایک گلٹی سی بن گئی تھی، در حقیقت وہ کینسر کی گلٹی تھی لیکن وہ اسے ایک حادثاتی تکلیف سمجھ کر نطر انداز کرتی رہی جس سے مرض کی پیچیدگیاں بڑھ گئیں۔

شوکت خانم کینسرہسپتال میں کینسر کے مریضوں کا علاج کرنے والی ایک سینیئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر نیلم صدیقی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انسانی خلیوں میں موجود کیمیائی مادوں کے توازن کے بگڑنے سے کینسر کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ چھاتی کے کینسر کی علامات کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی خاتون کو چھاتیوں یا اس کے ارد گرد کوئی گلٹی محسوس ہو، یا وہاں کوئی پھوڑا سا نکل آئے، یا چھاتیوں کی رنگت یا سائز میں غیرمعمولی تبدیلی کا احساس ہو تو فورا ڈاکٹر سے رابطہ کرکے اپنا میڈیکل چیک اپ کروانا چاہیے۔

01.09.2010 DW-TV Fit und Gesund Brustkrebs 1
مغربی معاشروں میں برسٹ کینسر کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کرنے کے متعدد طریقے استعمال کیے جاتے ہیںتصویر: DW-TV

چھاتی کے سرطان کی وجوہات کے حوالے سے ڈاکٹرنیلم کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بڑی عمر کی ایسی عورتیں اس بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں جن کے خاندانوں میں اس بیماری کے جینز پائے جاتے ہوں۔ اس کے علاوہ شعائیں لگوانے سے اور بعض ادویات کے ردعمل سے بھی اس بیماری کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر نیلم کے بقول خواتین اپنا وزن کم کرکے، متحرک طرز زندگی اختیار کرکے اور صحت بخش غذائیں استعمال کرکے بھی اس مرض کا بہتر مقابلہ کر سکتی ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنک ربن نامی غیر سرکاری تنظیم نے پاکستان میں چھاتی کے حوالے سے قومی سطح پر ایک اسکریننگ پروگرام شروع کیا ہے۔ عمر آفتاب کے مطابق تشویشناک بات یہ ہےکہ اس سکریننگ پروگرام کے ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کا مرض غیر روایتی طور پراب چھوٹی عمر کی لڑکیوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا محکمہ اب صوبائی حکومتوں کے پاس چلا گیا ہے۔جہاں ابھی حالات پوری طرح سنبھل نہیں پائے ہیں۔"ہم جیسے ادارے جو منصوبہ بندی کے تحت صحت کے میدان میں کوئی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے وفاقی سطح پر قائم متعلقہ دفتر میں رابطہ کر لیتے تھے، آجکل ہم کس سے ملیں کچھ سمجھ نہین آ رہا۔" عمر آفتاب نے بتایا۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: کشور مصطفیٰ