ایمنسٹی کا غزہ میں ’نسل کشی‘ کا الزام، اسرائیلی تردید
5 دسمبر 2024ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ نتیجہ پچھلے کئی ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات، اسرائیلی حکومت اور فوجی حکام کے 'غیر انسانی اور نسل کشی پر مبنی‘ بیانات، تباہی کی سیٹلائٹ تصاویر، فیلڈ ورک اور غزہ کے باشندوں کی زمینی رپورٹوں کی بنیاد پر اخذ کیا ہے۔
فلسطینیوں کی ’نسل کشی‘ کا مقدمہ، ابتدائی فیصلہ آج
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لندن میں قائم انسانی حقوق کی اس تنظیم نے اپنی رپورٹ کو عالمی برادری کے لیے ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنس کالامارڈ نے ایک بیان میں کہا، ''اسرائیل نے ماہ بہ ماہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کیا، جو انسانی حقوق اور وقار کے منافی ہے اور فلسطینیوں کو عملی طور پر تباہ کرنے کے اسرائیل کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم، ایچ آر ڈبلیو
کالامارڈ کا کہنا تھا، ''ہمارے افسوسناک نتائج بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کیے جانا چاہییں۔ یہ نسل کشی ہے، جو اب بند ہونا چاہیے۔‘‘
اسرائیل کی طرف سے تردید
اسرائیل نسل کشی کے کسی بھی الزام کو مسلسل مسترد کرتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے بین الاقوامی قانون کا احترام کیا ہے اور غزہ کی سرحد کے پار سے حماس کے حملے کے بعد اپنا دفاع اس کا حق ہے۔
اسرائیل نے ایمنسٹی کی رپورٹ میں اپنے خلاف نسل کشی کے الزامات کو سامیت دشمن قرار دے کر سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ اس نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس طرح کے الزامات کو چیلنج کیا ہے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اس الزام کو بھی مسترد کیا ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع نے ''غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب‘‘ کیا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ''قابل مذمت اور جنونی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر ایک من گھڑت رپورٹ پیش کی ہے، جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔‘‘ اسرائیل نے حماس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ حماس، جس نے اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا عزم کر رکھا ہے، اس نے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملہ کر کے قتل عام کیا، جس کے نتیجے میں جنگ بھڑک اٹھی۔
اسرائیل نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق اپنا دفاع کر رہا ہے اور اس کی جنگ ''غزہ کے عوام سے نہیں بلکہ حماس سے ہے۔‘‘
لیکن ایمنسٹی نے اسرائیل پر انیس سو اکاون کے نسل کشی کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے، ''وہ (اسرائیل) ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غزہ کی فلسطینی آبادی کو طبعی طور پر تباہ کر کے انہیں دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیل رہا ہے۔‘‘
رپورٹ میں کیا ہے؟
تین سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ایسے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے، جہاں ''حماس کی موجودگی یا کوئی اور فوجی مقاصد نہیں تھے۔‘‘
اس میں سات اکتوبر 2023 سے اس سال 20 اپریل تک کے درمیان غزہ میں ہونے والے 15 ایسے فضائی حملوں کا حوالہ دیا گیا ہے، جن میں 141 بچوں سمیت 334 فلسطینی شہری مارے گئے تھے، جن سے متعلق ایمنسٹی کو ''اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ان حملوں میں کسی کو بھی فوجی مقصد کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔‘‘
اس رپورٹ میں غزہ پٹی میں زمینی حالات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ مثلاﹰ اس میں کہا گیا ہے کہ دسیوں ہزار اموات اور جسمانی اور نفسیاتی صدمے کے علاوہ، فلسطینی ''غذائیت کے بحران، بھوک اور بیماریوں‘‘ کا شکار ہیں۔
کالامارڈ نے پریس کانفرنس کے دوران مزید کہا، ''جو ریاستیں اسرائیل کو ہتھیار منتقل کرتی ہیں، وہ بھی متعلقہ عالمی کنونشن کے تحت نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اس میں ان کے ملوث ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘
کالامارڈ نے کہا، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے فوجی مقاصد ہیں۔ لیکن فوجی مقاصد کی موجودگی نسل کشی کے ارادے کے امکان کی نفی نہیں کرتی۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اعلان کیا ہے کہ وہ سات اکتوبر کے حملے کے دوران فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے کیے گئے جرائم کے بارے میں بھی ایک رپورٹ شائع کرے گی، جس میں اسرائیل میں 1,208 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اسرائیل میں اس حملے کے بعد واپس غزہ جاتے ہوئے حماس اور دیگر عسکریت پسند فلسطینی تنظیموں کے جنگجو تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔
ج ا ⁄ ص ز، م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)