ایک کروڑ لوگوں کا کوئی وطن نہیں
4 نومبر 2014اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین انتونتیو گتیریس نے منگل سے شروع ہونے والی ایک تحریک کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے جنیوا میں بتایا کہ دنیا میں ’ہر دَس منٹ بعد ایک نیا بے وطن شہری پیدا ہو رہا ہے‘۔ اُنہوں نے اس صورتِ حال کو ’مکمل طور پر ناقابلِ برداشت‘ اور ’اکیس ویں صدی کے تقاضوں سے مکمل طور پر غیر ہم آہنگ‘ قرار دیا۔
یُو این ایچ سی آر کی اِس تحریک کا مقصد انسانوں پر عمر بھر مرتب ہونے والے بے وطنیت کے تباہ کن اثرات کو نمایاں کرنا اور مختلف ممالک پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے زور دینا ہے کہ کوئی بھی شخص شہریت کے حق اور تشخص سے محروم نہ رہے۔ اس سلسلے میں دَس ملین دستخط جمع کرنے کی ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے۔
اپنی تازہ رپورٹ میں اس عالمی ادارے نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کا پاسپورٹ نہ رکھنے والے انسانوں کو بچپن سے بڑھاپے تک قانونی شناخت کے مسائل سے لے کر تعلیم و تربیت، صحت، شادی، ملازمت، حتیٰ کہ انتقال کی صورت میں ڈیتھ سرٹیفیکیٹ تک کے معاملات میں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتونیو گتیریس نے کہا:’’بے وطنی کی حالت میں لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اُن کا وجود ہی ایک جرم ہو۔‘‘
لوگ کئی مختلف وجوہات مثلاً نسل، مذہب یا جنس کی بناء پر ہونے والے امتیازی سلوک کے باعث بے وطن ہوتے ہیں یا پھر تب، جب کوئی ملک ٹوٹ جاتا ہے۔ جنگوں اور تنازعات کی صورت میں بھی نومولود بچوں کی رجسٹریشن اکثر مشکل ہو جایا کرتی ہے۔
گتیریس کا کہنا تھا کہ اُن کے ادارے کی رپورٹ میں فلسطینیوں کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر چکی ہے۔ تاہم مغربی کنارے اور غزہ پٹی کے 4.5 ملین اور دنیا کے دیگر ممالک میں بکھرے ہوئے مزید کئی ملین فلسطینیوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابھی بطور ایک ریاست کے فلسطین کی جانب سے شہریت سے متعلق قوانین کی توثیق ہونا باقی ہے۔
انتونیو گتیریس نے بتایا کہ آج کل بے وطن لوگوں کا سب سے بڑا گروپ میانمار میں ہے، جہاں حکومت کوئی ایک ملین روہنگیا مسلمانوں کو شہریت کے حقوق دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے گئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ دوسری طرف جب یہی مسلمان واپس بنگلہ دیش پہنچتے ہیں تو وہاں بھی انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جاتا ہے۔
اسی طرح اگرچہ سوویت یونین کو ٹوٹے بیس سال بیت چکے ہیں تاہم اس بڑی سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں بے وطن ہونے والے کوئی چھ لاکھ انسان دو عشروں بعد بھی اسی حالت میں ہیں۔
یُو این ایچ سی آر کے سربراہ نے بتایا کہ ہمسایہ ملکوں لبنان اور اردن میں شامی مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے ستّر فیصد بچوں کو مکمل قانونی پیدائشی سرٹیفیکیٹ نہیں مل سکے ہیں۔ پھر ایران اور قطر جیسے ملکوں میں مردوں کو تو اپنی قومیت اپنے بچوں کو منتقل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اکثر صورتوں میں خواتین کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔
بے وطنیت کی غالباً نمایاں ترین مثال نامور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کی ہے، جو 1896ء میں جرمن شہریت ترک کر دینے کے بعد سے 1901ء تک بے وطن رہے، جب اُنہوں نے سوئٹزرلینڈ کی شہریت اختیار کی۔
ایک کھلے خط میں، جس پر انتونیو گتیریس کے ساتھ ساتھ یُو این ایچ سی آر کی خصوصی سفیر اداکارہ انجیلینا جُولی اور امن کا نوبیل انعام پانے والی شخصیات شیریں عبادی اور ڈیزمنڈ ٹُوٹُو سمیت کوئی بیس شخصیات نے دستخط کیے ہیں، بے وطن انسانوں کی ابتر حالت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
اس عالمی ادارے کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران قانون سازی اور تبدیل شُدہ پالیسیوں کی وجہ سے چار ملین سے زیادہ انسانوں کو شہریت کا حق ملا ہے۔ ان میں اردو زبان بولنے والے وہ تین لاکھ افراد بھی شامل ہیں، جنہیں 2008ء میں ایک عدالتی حکم کے ذریعے بنگلہ دیش کی شہریت دیے جانے کا حق ملا تھا۔