باراک اوباما صدارت کے بعد کیا کریں گے؟
19 جنوری 2017امریکی صدر باراک اوباما کو امریکی عوام میں بے حد مقبولیت حاصل ہے۔ اوباما کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ ملکی سیاسی معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتے لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ جمہوریت کے حوالے سے بنیادی مسائل پر بات نہیں کریں گے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے پیش رو کی جانب سے اچھی خاصی منظم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کل یعنی بروز جمعہ بتاریخ بیس جنوری جب ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف لے چکے ہوں گے، اوباما اپنی بیوی مِشیل اور دو کم عمر بیٹیوں مالیا اور ساشا کے ساتھ کیلیفورنیا میں چھٹیاں منانے روانہ ہوں گے۔ اوباما نے اپنے سابق ساتھی اور قریبی معاون کار ڈیوڈ ایکسلروڈ کو امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ،’’مجھے کچھ عرصے کے لیے خاموش رہنا ہے۔ خاموش رہنے سے میرا مطلب سیاسی طور پر خاموش رہنا نہیں ہے۔ مجھے اندرونی طور پر خود کو پر سکون کرنا ہے۔ ‘‘
سابق امریکی صدور اپنے مدت صدارت کے خاتمے کے بعد امریکی دارالحکومت میں کم ہی رہے ہیں تاہم صدر اوباما بیس جنوری کے بعد بھی اپنی بیٹی ساشا کے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل ہونے تک واشنگٹن میں ہی قیام کریں گے۔ باراک اوباما آبائی طور پر امریکی ریاست ہوائی کے رہنے والے ہیں۔ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز اوباما نے شکاگو سے کیا تھا اور انہوں نے واشنگٹن کے لیے کبھی کسی قلبی تعلق کا اظہار نہیں کیا۔ تاہم اب اوباما نے واشنگٹن کے ایک اونچے درجے کے علاقے کالوراما کے مضافات میں ایک گھر کرائے پر لیا ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی امریکی انتخابات میں شکست حیران کن تھی۔ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد صدر اوباما نے تسلیم کیا کہ وہ اس جیت کی پیش بینی نہیں کر سکے تھے۔ سی این این کو بحیثیت صدر دیے گئے اپنے آخری انٹرویو میں اوباما نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی شکست خوردہ جماعت کی تعمیرِ نو کے لیے کام کریں گے۔