بحران زدہ خطّوں میں صحافیوں کو درپیش خطرات
16 ستمبر 2009ظفر اقبال پیشے سے ایک صحافی ہیں اور بھارت کے زیر انتظام ریاست جموّں و کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جمّوں میں بھارتی نجی ٹیلی وژن چینل NDTV کے خصوصی نمائندے ہیں۔ مئی سن 2002ء میں نامعلوم مسلح افراد نے شورش زدہ ریاست کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ظفر اقبال پر ’پوائنٹ بلینک رینج‘ سے یکے بعد دیگرے تین گولیاں چلائیں تاہم وہ معجزاتی طور پر بچ گئے۔
وہ کہتے ہیں:’’میں کام کر رہا تھا تو ہمارے دفتر پر ایک حملہ ہوا۔ حالانکہ مجھے تین گولیاں لگیں لیکن اس کے باوجود میں معجزاتی طور پر بچ گیا۔ بحران زدہ خطّوں میں صحافیوں کے لئے بہت ساری مشکلات اور دقتیں ہوتی ہیں۔‘‘
’’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘‘
سن 2002ء میں ظفر اقبال سری نگر میں ایک انگریزی روزنامے ’’کشمیر امیجز‘‘ کے ساتھ بطور ’’سب ایڈیٹر‘‘ کام کرتے تھے۔ ڈوئچے ویلے اردو سروس سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کے لئے بہترین جواب یہ ہوتا ہے کہ صحافی اور زیادہ شدت کے ساتھ کوشش کریں کہ ان کی رپورٹیں، تحریریں اور جائزے غیر جانبدار، شفاف اور سچائی پر مبنی ہوں۔
’’مجھ پر حملے کے بعد میرے تمام دوستوں، رشتہ داروں، اہل خانہ اور ساتھیوں نے میری حوصلہ افزائی اور مدد کی، جس سے میری ہمت اور زیادہ بڑھی۔ یہی وجہ رہی کہ تمام دقتوں اور مشکلات کے باوجود میں دوبارہ اپنا کام کر پایا۔ جب آپ صاف و شفاف ہوں تو آپ میں کھویا ہوا اعتماد دوبارہ بحال ہونے میں دیر نہیں لگتی۔‘‘
صحافیوں کے حقوق کے تحفّظ کے لئے سرگرم عمل تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس IFJ کی ویب سائٹ پر سب سے پہلے ہماری نظر اس جملے پر پڑتی ہے:’’اگر صحافی بدعنوانی اور غربت کے حالات اور خوف کے سائے میں ہوں، تو پریس کی آزادی ممکن نہیں۔‘‘
عراق، افغانستان، پاکستان، سری لنکا، کشمیر، سوڈان اور صومالیہ جیسے بحران زدہ خطّوں میں صحافیوں کو بہت ساری مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بین الاقوامی تنظیم’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ CPJ کے مطابق اس سال دنیا کے مختلف ملکوں میں اب تک اٹھائیس صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔گزشتہ سال اڑتالیس 48 صحافی اپنی ڈیوٹی کے دوران مارے گئے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق’’لائن آف ڈیوٹی‘‘ میں ہلاک یا زخمی ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔
سچائی کا ترجمان:
بحران زدہ خطّوں میں ایک صحافی کے سامنے بہت سارے چیلنجز ہوتے ہیں۔کبھی ریاست اور اس کی سیاست کا دباوٴ تو کبھی غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں کا خوف، لیکن ایک پیشہ ور صحافی ہمیشہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ تلواروں کے سائے میں رہ کر بھی سچائی کی ترجمانی کرے۔
ریاست اور سیاست کا دباوٴ:
سری لنکا میں ابھی حال ہی میں ایک عدالتی فیصلے میں تسے نایاگم نامی ایک مقامی صحافی کو بیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سری لنکا میں اکتیس اگست کو اس نامور صحافی کو یہ سزا سنائی گئی۔ جے ایس تسے نایاگم پر الزام ہے کہ وہ اپنی تحریروں، رپورٹوں اور کالمز میں سری لنکن فوج کی مخالفت اور باغی تامل ٹائیگرز کی حمایت کرتے رہے ہیں۔کولمبو میں ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس صحافی کو ’’فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے اور مسلح تامل باغیوں سے اپنی ویب سائٹ کے لئے مالی مدد حاصل کرنے‘‘ کا بھی مجرم قرار دیا۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے اپنی رپورٹ میں اس سری لنکن صحافی کے خلاف سنائے گئے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی عدالتی فیصلے پر نکتہ چینی کی۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جورسٹس ICJ نے اپنی تازہ رپورٹ میں مقدمے کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگایا۔
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن AHRC نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسے سری لنکا کے عدالتی فیصلے پر ’’سخت حیرت‘‘ ہوئی ہے۔ کمیشن کے مطابق صحافی تسے نایاگم کے مقدمے کے پیچھے واضح طور پر ’’سیاست کا عمل دخل ہے۔‘‘
’نارتھ ایسٹرن‘ نامی ایک ماہانہ جریدے کے مدیر جے ایس تسے نایاگم خود کو بے قصور بتاتے ہیں۔ یکم مئی، پریس کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے اس سال اپنے ایک بیان میں سری لنکن صحافی تسے نایاگم کا تذکرہ کیا تھا۔ تاہم سری لنکن حکومت نے اس وقت کہا کہ امریکی صدر کو اس کیس کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔
تامل ٹائیگرز کے خلاف چھبیس سالہ جنگ کے دوران سری لنکن فوج کو حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کے حوالے سے ہمیشہ ہی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: افسر اعوان