پاکستانی ’غلاموں‘ کو نئی زندگی مل گئی
29 جون 2020بحیرہ روم میں لیبیا سے براعظم یورپ کی جانب گامزن ایک کشتی میں سوار اکتیس پاکستانی باشندوں کو گزشتہ جمعرات پچیس جون کو ریسکیو کیاگیا ۔ اس کشتی میں دیگر پناہ گزینوں سمیت کل اکیاون افراد سوار تھے۔ بعد میں ان لوگوں کو ایمبولینس کشتیوں کے ذریعے اطالوی جزیرے لامپاڈوسا تک پہنچایا گیا۔
پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ لیبیا میں ان کو تشدد اور بدسلوکی کا سامنا تھا اور ریسکیو شپ نے ان کو ایک نئی زندگی بخشی۔
مزید پڑھیے: یونانی سرحدی محافظوں نے مبینہ طور پر ایک پاکستانی تارکین وطن کو گولی مار دی، ڈئیر اشپیگل
اس گروپ میں شامل عمران نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہ طرابلس کے قریب مزدوری کرتا تھا۔ اس نے بتایا، ''وہاں مجھے فروخت کیا گیا، انہوں نے مجھے قید کر دیا اور ایسا لگتا تھا کہ میں ایک غلام ہوں۔‘‘
لبییا میں پھنسے ایک اور پاکستانی پناہ گزین نعیم نے بتایا کہ وہ کسی طرح اس گروہ کے چنگل سے بھاگ نکلا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ لیکن پولیس نے اسے دوبارہ اغوا کرنے والے گروہ کے حوالے کر دیا۔
سمندر سے ریسکیو کیے گئے ان پاکستانی تارکین وطن نے لامپاڈوسا میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اپنے تلخ ماضی کے بارے میں بتایا کہ لیبیا میں ان پر بہت تشدد کیا گیا اور انہیں انسان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے انہوں نے لیبیا سے فرار ہو کر یورپ آنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیے: کروز شپ کا انجن خراب، تیرہ سو مسافروں کو ریسکیوکرنا پڑے گا
پاکستانی پناہ گزین محمد ارشد نے بتایا کہ ان کو اغوا کرنے کے بعد تشدد کے ذریعے زبردستی گھر سے پیسے منگوانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ ارشد کے والد نے پاکستان میں قرض لے کر اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے دس ہزار ڈالر کی رقم جمع کرنی تھی۔
لیبیا سے اتنی تعداد میں ایک ساتھ پاکستانی شہریوں کا یوں فرار ہونا ایک غیر معمولی بات ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق لیبیا کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے افراد میں پاکستانیوں کی تعداد بہت کم رہی ہے اور اس میں زیادہ تر سوڈان اور بنگلہ دیش کے لوگ ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیے:شمالی مقدونیہ میں درجنوں افغان اور پاکستانی پکڑے گئے
ریسکیو کیے گئے لوگوں میں شامل ارسلان احمد نے بتایا کہ انہوں نے لیبیا میں آٹھ ماہ تک تشدد برداشت کرنے کے بعد آخر کار سمندر کے خطرناک راستے سے یورپ پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ احمد کے بقول، ''بحیرہ روم میں ایک مرتبہ مریں گے، لیکن لیبیا میں تو روز مرتے تھے۔‘‘
ع آ / ش ج (اے ایف پی)