برسلز میں دہشت گردی کا شدید خطرہ، میٹرو ٹرین سروس بند
21 نومبر 2015نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں تیرہ نومبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے بیلجیم میں بھی اس حملے میں ملوث مشتبہ عسکریت پسندوں کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور پورے ملک میں سکیورٹی اہلکاروں کو بہت چوکنا کیا جا چکا ہے۔ تاہم دارالحکومت برسلز میں سکیورٹی غیر معمولی طور پر ہائی الرٹ پر ہے اور آج ہفتہ اکیس نومبر کے روز ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف احتیاطی اقدامات کے طور پر شہر میں ہر قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ سروس ایک روز کے لیے معطل کر دی گئی ہے۔
بیلجین پولیس اور سکیورٹی سروسز نے آج کہا کہ برسلز میں ’دہشت گردانہ حملوں کا بہت سنجیدہ اور حقیقی خطرہ‘ ہے اور شہریوں کو چاہیے کہ اپنے گھروں سے باہر وہ پرہجوم علاقوں سے دور رہیں۔ روئٹرز نے لکھا ہے کہ پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کا ایک بڑا مشتبہ ملزم، جس کا تعلق برسلز ہی سے ہے، ابھی تک مفرور ہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔
بیلجیم کی حکومت نے دہشت گردی کے خطرات کے حوالے سے ملک میں سکیورٹی اقدامات کے لیے چار مختلف درجے طے کر رکھے ہیں اور آج ہفتے کے روز برسلز کے لیے دہشت گردی کے ایسے سب سے شدید یا چوتھے درجے کے خطرے کا اعلان کر دیا گیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک روزہ بندش کا اعلان آج برسلز میں ملکی حکومت کے قائم کردہ بحرانی مرکز نے کیا۔ اس کرائسس سینٹر نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ شہر میں چاروں بڑی میٹرو سروس لائنوں کی بندش کا فیصلہ پولیس کی سفارش پر کیا گیا۔ تاہم اس مرکز نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان نئے اور انتہائی سخت اقدامات کی وجہ دہشت گردی کے شدید خطرات سے متعلق کس طرح کی نئی اطلاعات بنیں۔
پیرس میں تیرہ نومبر کے دہشت گردانہ حملوں کا ایک اہم مشتبہ ملزم صالح عبدالسلام نامی ایک 26 سالہ عسکریت پسند بھی ہے، جو برسلز ہی کا رہنے والا ہے۔ پیرس حملوں کے دوران صالح کے بڑے بھائی براہیم عبدالسلام نے ایک معروف اور پرہجوم ریستوراں میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ پولیس کے تفتیشی ماہرین کے بقول پیرس حملوں اور اپنے بھائی کی ان حملوں میں موت کے بعد صالح عبدالسلام واپس برسلز آ گیا تھا۔
فرانس میں ان حملوں کے بعد دہشت گردی کے انہی خطرات کے باعث گزشتہ ہفتے برسلز ہی میں بیلجیم اور اسپین کی قومی فٹ بال ٹیموں کے مابین پہلے سے طے شدہ ایک دوستانہ میچ بھی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
ان حملوں کے بعد سے فرانس اور بیلجیم کے ساتھ ساتھ مختلف یورپی ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کئی مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کر چکے ہیں جبکہ ان حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ، مراکشی نژاد بیلجیم کا شہری عبدالحمید اباعود بدھ 18 نومبر کے روز پیرس کے شمالی علاقے سینٹ ڈینیس میں پولیس اور فوج کی کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی ایک بڑی کارروائی میں دو دیگر افراد کے ساتھ مارا گیا تھا۔