1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی رپورٹ کی مذمت پر مذہبی امور کمیٹی تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
18 مارچ 2021

انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقلیتوں رہنماؤں نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے مذہبی امور کی اس قرارداد مذمت کو افسوسناک قرار دیا ہے جس میں انہوں نے مذہبی آزادی کے حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ کی رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3qpJQ
Pakistan Parlament in Islamabad
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

برطانوی پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کی ایک کمیٹی نے پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور برطانوی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے پاکستانی حکومت سے بات چیت کرے۔

برطانوی پارلیمنٹ کی اس رپورٹ میں پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ ہونے والے متعصبانہ سلوک کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں احمدیوں کے خلاف امتیازی قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ احمدیوں کی طرف سے مذہبی لٹریچر چھاپنے کی پابندی کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام مذہبی برادریوں کو مکمل مذہبی آزادی دی جائے۔

پاکستان میں حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں اور موجودہ حکومت نے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے حال ہی میں اقلیتوں کی جائیدادیں ان کے حوالے کی ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کو بحال کیا ہے۔ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی رپورٹ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے مذہبی امور اور مذہبی ہم آہنگی نے یہ قرارداد بدھ 17 مارچ کو منظور کی تھی۔

مذمت افسوناک ہے

تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقلیتی رہنما اس قرارداد مذمت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس طرح حقائق سے منہ چھپا رہا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے نائب چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کو رپورٹ کا جائزہ لے کر ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہییں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں کم عمر لڑکیاں اغوا ہو رہی ہیں اور ان کو زبردستی مسلمان بنایا جارہا ہے۔ احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ان کے افراد کو قتل بھی کیا جا رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ یہ حقائق سے منہ چھپانے کے مترادف ہے۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی نے مولویوں کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کی قرارداد پاس کی ہے لیکن مولویوں کو جتنا خوش کریں گے، وہ اتنا ہی سر پر چڑھیں گے۔‘‘

Pakistan Eröffnung des neuen Parlaments 1. Juni 2013
پاکستانی قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے مذہبی امور اور مذہبی ہم آہنگی نے یہ قرارداد بدھ 17 مارچ کو منظور کی تھی۔تصویر: AFP/Getty Images

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، ''ملک میں تمام لوگوں کے لیے مکمل مذہبی آزادی ہونی چاہیے لیکن احمدی سلام نہیں کر سکتے وہ مسلمان عبادات اپنا نہیں سکتے۔ ان تمام چیزوں کی موجودگی میں ہم کیسےکہہ سکتے ہیں کہ انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔‘‘

اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے امر لال ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ حکومت اس طرح کی رپورٹوں کی مذمت کرے: '' اگر حکومت کو اتنا یقین ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کو تمام حقوق مل رہے ہیں تو وہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی تنظیموں کو خود پاکستان آنے دیں تاکہ وہ آ کر خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں کہ یہاں پر اقلیتوں کو کس طرح کے حقوق حاصل ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ یہاں پر ناروا سلوک ہو رہا ہے، چاہے وہ احمدی ہوں، ہندو ہوں یا دوسرے مذاہب کے ماننے والے۔ جبری طور پر لوگوں کے مذاہب تبدیل کیے جا رہے ہیں اور مذہبی اقلتیں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس کے مندرجات اور سفارشات پر عمل کرنا چاہیے: ''ہمیں اپنے قانون کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ یہ اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔‘‘

جماعت احمدیہ کا موقف

جماعت احمدیہ پاکستان کے ایک رہنما عامر محمود نے ڈی ڈبلیو کو اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے بتایا، ''جس دن قومی اسمبلی کی کمیٹی نے برطانوی ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ کی رپورٹ کی مذمت کی اسی دن گرمولہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ میں احمدی عبادت گاہ کے مینار پولیس نے مسمارکیے۔ یہ تو حال ہے پاکستان میں احمدیوں کے انسانی حقوق کا۔‘‘

ان کا مذید کہنا تھا کہ آرٹیکل 20 پاکستانی شہریوں کی مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے: ''لیکن احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلتی ہے انہیں واجب القتل قرار دیا جا تا ہے، عوام کو احمدیوں کے بائیکاٹ پر اکسایا جاتا ہے اور تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کی جگہوں پر احمدیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔‘‘

مکمل آزادی ہے، پاکستانی حکام

پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی فضل محمد خان کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل نہیں ہیں جو حقائق کے منافی ہے: ''پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو تمام طرح کے حقوق حاصل ہیں اور وہ دوسرے پاکستانی شہریوں کی طرح آزادانہ طور پر زندگی گزار رہے ہیں اور موجودہ حکومت نے تو مذہبی اقلیتوں کی بہت خدمت کی ہے اور ان کے بہت سارے مذہبی ادارے بحال کیے ہیں اور مذہبی اقلیتوں کی جائیدادوں کے حوالے سے بھی کام کیا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو پاکستان آنا چاہیے اور خود آکر مشاہدہ کرنا چاہیے: ''میں اس بات کی پر زور تردید کرتا ہوں کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ کچھ عرصے پہلے امریکا نے بھی پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا اور یورپی یونین کی طرف سے اس طرح کی تشویش ماضی میں ظاہر کی گئی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں ان رپورٹوں کو سنیجدگی سے نہیں لیا جاتا۔